مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 756
عَنْ اَبِیْ حُمَےْدِن السَّاعِدِیِّ ص قَالَ فِیْ نَفَرٍ مِّنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَا اَحْفَظُکُمْ لِصَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَاَےْتُہُ اِذَا کَبَّرَ جَعَلَ ےَدَےْہِ حِذَآءَ مَنْکِبَےْہِ وَاِذَا رَکَعَ اَمْکَنَ ےَدَےْہِ مِنْ رُکْبَتَےْہِ ثُمَّ ھَصَرَ ظَہْرَہُ فَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہُ اسْتَوٰی حَتّٰی ےَعُوْدَ کُلُّ فَقَارٍ مَکَانَہُ فَاِذَا سَجَدَ وَضَعَ ےَدَےْہِ غَےْرَ مُفْتَرِشٍ وَّلَا قَابِضِھِمَا وَاسْتَقْبَلَ بِاَطْرَافِ اَصَابِعِ رِجْلَےْہِ الْقِبْلَۃَ فَاِذَا جَلَسَ فِی الرَّکْعَتَےْنِ جَلَسَ عَلٰی رِجْلِہِ الْےُسْرٰی وَنَصَبَ الْےُمْنٰی فَاِذَا جَلَسَ فِی الرَّکْعَۃِ الْاٰخِرَۃِ قَدَّمَ رِجْلَہُ الْےُسْرٰی وَنَصَبَ الْاُخْرٰی وَقَعَدَ عَلٰی مَقْعَدَتِہٖ۔
تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کہاں تک اٹھایا جائے؟
اور حضرت ابوحمید ساعدی ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے آقائے نامدار ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت میں فرمایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے طریقہ نماز کو تم میں سب سے زیادہ جانتا ہوں۔ میں نے آپ ﷺ کو دیکھا ہے کہ جب آپ ﷺ تکبیر کہتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے تھے اور جب رکوع میں جاتے تھے تو اپنے دونوں زانو ہاتھوں سے مضبوط پکڑتے تھے اور اپنی پیٹھ جھکا دیتے تھے (تاکہ گردن کے برابر ہوجائے) اور جب اپنا سر (رکوع سے) اٹھاتے تو سیدھے کھڑے ہوجاتے یہاں تک کہ سارے جوڑ اپنی اپنی جگہ پر آجاتے تھے اور جب سجدے میں جاتے تو دونوں ہاتھ زمین پر (منہ کے بل) رکھ دیتے تھے اور انہیں نہ پھیلاتے تھے اور نہ (پہلو کی طرف) بیٹھتے تھے اور پاؤں کی انگلیاں قبلے کی طرف سامنے رکھتے تھے اور جب دو رکعتیں پڑھنے کے بعد بیٹھتے تھے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے تھے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے تھے اور جب آخری رکعت پڑھ کہ بیٹھتے تھے تو بائیں پاؤں کو آگے نکال دیتے اور دوسرے (یعنی دائیں) پاؤں کو کھڑا کر کے کو لھے پر بیٹھ جاتے تھے۔ (صحیح البخاری )

تشریح
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ جب تکبیر کہتے تھے تو اپنے ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے تھے۔ چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کا مسلک یہی ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھوں کو کانوں کی لو کے مقابل تک اٹھانا چاہئے کیونکہ دیگر احادیث میں اسی طرح مروی ہے اور چونکہ بعض روایات میں ان دونوں سے الگ ایک تیسرا طریقہ یعنی ہاتھوں کو کانوں کی اوپر کی جانب تک اٹھانا بھی آیا ہے۔ اس لئے امام اعظم (رح) نے نہ تو کانوں کے نیچے یعنی کندھوں تک اٹھانے کے طریقہ کو اختیار کیا اور نہ کانوں کے اوپر کی جانب تک اٹھانے کے طریقہ کو اختیار کیا بلکہ درمیانی طریقہ اختیار کیا ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) نے ان روایات کی تطبیق کے سلسلے میں فرمایا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اس طرح اٹھانا چاہئے کہ ہاتھ کی ہتھیلیاں تو کاندھوں کے مقابل رہیں انگوٹھے کانوں کی لو کے مقابل اور انگلیوں کے سرے کان کے اوپر کے حصے پر رکھے جائیں تاکہ اس طریقے سے تمام احادیث میں عمل ممکن ہوجائے اور روایتوں میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہ رہ جائے اور ان احادیث میں ایک دوسری تطبیق یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ احادیث مختلف اوقات سے متعلق ہیں یعنی تکبیر تحریمہ کے وقت کبھی تو آپ ﷺ اس طرح ہاتھ اٹھاتے ہوں گے اور کبھی اس طرح۔ آپ ﷺ کے رکوع کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ﷺ دونوں ہاتھوں سے دونوں زانو مضبوطی سے پکڑ لیتے تھے اور انگلیوں کو کشادہ رکھتے تھے اور پھر گردن مبارک کو جھکا کر بالکل پیٹھ کر برابر کردیتے تھے۔ علماء نے لکھا ہے کہ رکوع میں تو انگلیاں کشادہ رکھنی چاہئیں اور سجدے میں ملی ہوں نیز تکبیر تحریمہ اور تشہد میں ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دینا چاہئے۔ سجدے میں زمین پر ہاتھ رکھنے کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدے کی حالت میں انگلیاں اور ہتھلیاں زمین پر پھیلا دینی چاہئیں اور پہنچے اٹھے ہوئے اور پہلو اس طرح الگ رکھنے چاہئیں کہ اگر بکری کا بچہ چاہے تو نیچے سے گزر جائے۔ اس حدیث میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا کہ قومہ سے سجدہ میں جانے کے وقت زمین پر پہلے زانو رکھے جائیں یا ہاتھ تو اس سلسلہ میں صحیح مسئلہ یہ ہے کہ درست تو دونوں طریقے ہیں لیکن اکثر آئمہ کے نزدیک افضل اور مختار یہی ہے کہ زمین پر پہلے زانو رکھے۔
Top