مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 728
وَعَنْ اَبِی سَعِیْدٍالخُدْرِیِّ قَالَ بَیْنَمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّی بِاَصْحَابِہٖ اِذْ خَلَعَ نَعْلَیْہِ فَوَضَعَھُمَا عَنْ یَسَارِہِ فَلَمَّا رَایْ ذٰلِکَ القَوْمُ اَلْقُوْا نِعَالَھُمْ فَلَمَّا قَضَی رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمصَلَاتَہ، قَالَ مَا حَمَلَکُمْ عَلَی اِلْقَائِکُمْ نِعَالَکُمْ قَالُوْا رَاَیْنَکَ اَلْقَیْتَ نَعْلَیْکَ فَاَلْقَیْنَا نِعَالَنَا فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ جِبْرِیْلَ اَتَانِی فَأَخْبَرَنِی اَنَّ فِیْھِمَا قَذَرًا اِذَا جَآءَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ فَلْیَنْظُرْ فَاِنْ رَایَ فِی نَعْلَیْہِ قَذَرًا فَلْیَمْسَحُہ، وَالْیُصَلِّ فِیْھِمَا۔ (رواہ ابوداؤد و الدارمی)
ستر ڈھانکنے کا بیان
اور حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں ایک مرتبہ سرور کائنات ﷺ اپنے اصحاب کو نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ ﷺ نے اچانک اپنے جوتے اتار کر اپنی بائیں طرف (دور ہٹا کر) رکھ لئے جب لوگوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار ڈالے۔ رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا کہ تمہیں جوتے اتارنے پر کس چیز نے مجبور کردیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنے جوتے اتار ڈالے ہیں اس لئے ہم نے بھی اپنے جوتے اتار ڈالے آپ ﷺ نے فرمایا کہ (اس لئے میں نے تو جوتے اس لئے اتارے تھے کہ) میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے خبر دی کہ میرے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے (اس لئے میں نے جوتے اتاردئیے تھے) تم میں سے جو آدمی مسجد میں آئے تو پہلے وہ اپنے جوتے دیکھ لیا کرے۔ اگر ان میں نجاست لگی ہوئی معلوم ہو تو انہیں صاف کرلے (اور انہیں پہنے ہی پہنے) نماز پڑھ لے۔ (سنن ابوداؤد، دارمی )

تشریح
قذر (قاف کے زبر اور دال معجمہ کے ساتھ) اس چیز کو کہتے ہیں جسے طبیعت مکروہ رکھے اس لفظ سے بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے جوتے میں ایسی نجاست نہیں لگی ہوگی جس سے نماز درست نہ ہوتی ہو بلکہ کوئی گھناؤنی چیز جیسے رینٹھ وغیرہ لگی ہوگی کیونکہ اگر نجاست لگی ہوتی تو آپ ﷺ از سر نو نماز پڑھتے حالانکہ آپ ﷺ نے جتنی نماز پڑھ لی تھی نہ آپ ﷺ نے اس کا اعادہ کیا اور نہ از سر نو نماز پڑھی۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کا خبر دینا اور پھر اس خبر کی بناء پر آپ ﷺ کا جوتوں کو اتار دینا اس لئے تھا کہ آپ ﷺ کے مزاج اقدس میں چونکہ صفائی اور ستھرائی بہت زیادہ تھی اس لئے جوتوں پر اس گھناؤنی چیز کا لگا رہنا آپ ﷺ کے مزاج کے مناسب نہیں تھا اور بعض شوافع حضرات فرماتے ہیں کہ اگر کسی نمازی کے کپڑے وغیرہ پر نجاست لگی ہوئی ہو اور اسے اس کا علم نہ ہو تو نماز ہوجاتی ہے حضرت امام شافعی (رح) کا یہ قول قدیم ہے۔ بہرحال۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی متابعت واجب ہے کیونکہ صحابہ نے کوئی سبب پوچھے بغیر محض آپ ﷺ کو جوتے اتارتے دیکھ کر اپنے جوتے فوراً اتار ڈالے اور پھر رسول اللہ ﷺ نے بھی اسے جائز رکھا۔
Top