مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 719
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ خَمِےْصَۃٍ لَّھَا اَعْلَامٌ فَنَظَرَ اِلٰی اَعْلَامِھَا نَظْرَۃً فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ اذْھَبُوْا بِخَمِےْصَتِیْ ھٰذِہِ اِلٰی اَبِیْ جَھْمٍ وَّاْتُوْنِیْ بِاَنْبِجَانِےَّۃِ اَبِیْ جَھْمٍ فَاِنَّھَا اَلْھَتْنِیْ اٰنِفًا عَنْ صَلٰوتِیْ مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَفِیْ رَوَاےَۃٍ لِلْبُخَارِیِّ قَالَ کُنْتُ اَنْظُرُ اِلٰی عَلَمِھَا َواَنَا فِی الصَّلٰوۃِ فَاَخَافُ اَنْ ےَّفْتِنَنِیْ ۔
ستر ڈھانکنے کا بیان
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نے ایک ایسی چادر میں نماز پڑھی جس کے کنارے دوسرے رنگ کے تھے یا اس کے کناروں پر کچھ کام کیا ہوا تھا چناچہ آپ ﷺ نے اس پر کئے ہوئے کام کو دیکھا اور جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ اس چادر کو ابی جہم کے پاس لے جاؤ (اور اسے اس کے حوالہ کر کے) ابی جہم کی انبجانیہ لے آؤ کیونکہ اس چادر نے مجھے میری نماز میں حضوری قلب کی دولت سے باز رکھا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور صحیح البخاری کی ایک روایت میں (یہ بھی منقول ہے کہ) آپ ﷺ نے فرمایا میں نماز کے دوران اس چادر کے نقش و نگار کی طرف دیکھنے لگا اور مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ میری نماز خراب نہ کر دے۔

تشریح
خمیصہ ایک چادر کو کہتے ہیں جو خز کی یا صوف کی ہوتی ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اور دھاری دار ہوتی ہے لہٰذا جملہ لھا اعلام یا تو خمیصہ کی تاکید ہے یا اس کا بیان ہے۔ یہ چادر ایک صحابی حضرت ابوجہم نے تحفہ کے طور پر آپ ﷺ کی خدمت لائے تھے آپ ﷺ نے جب اس کو اوڑھ کر نماز پڑھی اور نماز کے آداب کے دوران آپ ﷺ کی نظر اس کی دھاریوں پر پڑی تو تو قلب مبارک میں کچھ فرق محسوس ہوا، چناچہ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے تو صحابہ سے فرمایا کہ اسے ابوجہم کو واپس کر آؤ، چونکہ آپ ﷺ کو یہ خیال ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ اس چادر کو واپس کردینے سے ایک مخلص صحابی کی دل شکنی ہو اس لئے آپ ﷺ نے یہ فرما دیا کہ اس کے بدلہ میں ان سے انبجانیہ لے آؤ۔ انبجان ایک شہر کا نام ہے اس شہر کی بنی ہوئی چاردیں بالکل سیاہ ہوتی تھیں۔ اس شہر کی مناسبت سے چادر کو انبجانیہ کہا جاتا تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ظاہری نقش و نگار پاک نفوس اور صاف قلوب کو بھی متاثر کرتے ہیں اور یہ تاثیر قلب کی انتہائی صفائی اور لطافت کی بناء پر ہوتی ہے جیسے کہ کسی صاف و شفاف اور سفید چادر پر ایک معمولی سیاہ سا نقطہ بھی پڑجاتا ہے تو فوراً ظاہر ہوجاتا ہے اور ناگوار محسوس ہوتا ہے اور چادر جنتی زیادہ سفید ہوتی ہے وہ سیاہ نقطہ اتنا ہی زیادہ ظاہر ہوتا ہے۔ یہی حال ان نفوس قدسیہ کا ہے جس کے قلب و دماغ تعلق مع اللہ اور ریاضت و مجاہدہ کی بناء پر اتنے پاک و صاف ہوجاتے ہیں کہ گناہ و معصیت الگ ہے کسی معمولی مباح چیز کا ادنیٰ سا تصور بھی قلب و دماغ پر اثر انداز ہوجاتا ہے لیکن ان کے مقابلے پر آلود گان تیرہ باطن بھی ہوتے ہیں جن کے دل و دماغ پر بڑے بڑے گناہ کا بھی اثر نہیں ہوتا۔ ہمارا خیال ہے کہ اس حدیث کے ذریعے اصل امت کو یہ تعلیم دینا مقصد ہے کہ نماز کے سلسلے میں ایسی چیزوں سے احتیاط رکھنی چاہئے جو نماز میں دھیان بٹانے کا سبب بنتی ہوں۔
Top