مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 709
وَعَنْ مَعَاذَ بْنِ جَبَلِ قَالَ اَحْتَبْسَ عَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاۃٍ عَنْ صَلَاۃِ الّصُبْحِ حَتَّی کِدْنَا نَتَرَآی عَیْنَ الشَّمْسَ فَخْرَجْ سَرَیْعًا فَثْوِبَ بِالصَّلَاۃِ فَصَلَّی رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَجَوَّزَ فِیْ صَلاَتِہٖ فَلَمَّا سَلَّمَ دَعَا بِصُوْتِہٖ فَقَالَ لَنَا عَلٰی مُصْافَکُمْ کَمَا اَنْتُمْ ثُمَّ اَنْفَتَلَ اَلَیْنَا ثُمَّ قَالَ اَمَا اَنِّیْ سَاُحَدِّ ثُکُمْ مَا حَبَسَنِیْ عَنْکَمُ الْغَدَاۃَ اِنِّیْ قُمْتُ مِنَ الِّلیْلِ فَتَوَضَّأُتُ وَصَلَّیْتُ مَا قُدِّرَلِیْ فَنَعَسْتُ فِیْ صَلاَتِیْ حَتَّی اَسْتَثْقَلْتُ فَاِذَا اَنَا بِرَبِّی تَبَاَرَکَ وَ تَعَالیٰ فِیْ اَحْسَنِ صُوْرَۃٍ فَقَالَ یَا مُحَمَّدً قَلْتُ لَبَّیْکَ رَبَّ قَالَ فَیْمَ یَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْاَ عَلٰی قُلْتُ لَا اَدْرِیْ قَالَھَا ثَلاَثًا قَالَ فَرَاَیْتُہُ وَضَعَ کَفَّہُ بَیْنَ کَتِفَیَّ حَتَّی وَجَدْتَّ بَرْدَ اَنَا مِلِہٖ بَیْنَ ثَدْیَیَّ فَتَجَلَّی لِیْ کُلَّ شَیْءٍ وَعَرَفْتُ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ قُلْتَ لَبَّیْکَ رَبِّ قَالَ فَیْمَ یَخْتَصِمُ الْعَلَأُ الْاَ عَلٰی قُلْتُ فِی الْکُفَّارَاتِ قَالَ مَاھُنَّ قُلّتُ مَشّئُی الْاَقْدَامِ اِلَی الْجَمَاعَاتِ وَالْجَلُوْسُ فِی الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ وَ اِسْبَاغُ الْوُضْوْءِ حَیْنَ الْکَرَیْھَاتِ قَالَ ثُمَّ فَیْم قُلْتُ فِی الدَّرَجَاتَ قَالَ وَمَا ھِنَّ قُلْتُ اِطْعَامُ الطَّعَامَ وَلَیْنُ اْلکَلٰمُ وَ الصَّلٰوۃُ بِاللِّیْلِ وَالنَّاسُ نِیَامٌ قَالَ سَلْ قُلْتُ اَللَّھُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکَیْنِ وَاَنْ تَغْفِرْلِیْ وَتَرْحَمْنِیْ وَاِذَا اَرَدْتُّ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمً فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ وَاَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبُّ عَمَلَ یُقَرِّبْنِیْ اِلٰی حُبُّکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّھَا حَقٌّ فَادْرْ سُوْھَا ثُمَّ تَعْلَمْوْھَا رَوَاہُ اَحْمَدْ بِنْ حَنْبَلْ وَاَلْتَرْمَذِیْ وَقَالَ ھٰذَا حَدَیْثٌ حَسَنٌ صَحَیْحٌ سَأَلْتُ مُحَمَّدَ اِبْنِ اِسَمٰعَیْلَ عَنْ ھٰذَا الْحَدَیْثِ فَقَالَ ھٰذَا حَدَیْثٌ صَحِیْحٌ۔
مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
اور حضرت معاذ بن جبل ؓ فرماتے ہیں کہ ایک روز سرور کائنات ﷺ نے صبح کی نماز میں تشریف لانے میں (خلاف عادت اتنی) تاخیر فرمائی کہ قریب تھا کہ سورج نکل آئے۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ جھپٹتے ہوئے تشریف لائے چناچہ نماز کے لئے تکبیر کہی گئی اور آپ ﷺ نے (صحابہ کے ہمراہ) نماز پڑھی (اس طرح کہ) نماز میں تخفیف کی (یعنی چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھیں اور سلام پھیرنے کے بعد ہم سے بآواز بلند فرمایا کہ جس طرح تم لوگ بیٹھے ہو اسی طرح اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا پھر آپ ﷺ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہوشیار! میں آج صبح کی نماز میں دیر سے آنے کی وجہ بیان کرتا ہوں (وہ یہ ہے) کہ میں نے آج رات (تہجد کی نماز کے لئے اٹھ کر وضو کیا اور جو کچھ میرے مقدر میں نماز تھی پڑھی اور نماز ہی میں مجھے اونگھ آگئی یہاں تک کہ نیند مجھ پر غالب آگئی (اس وقت) اچانک میں نے اپنے پروردگار بزرگ و برتر کو اچھی صورت میں (یعنی اچھی صفت کے ساتھ) دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا، اے محمد! میں نے عرض کیا پروردگار میں حاضر ہوں! اللہ تعالیٰ نے فرمایا (تمہیں معلوم ہے) مقربین فرشتے کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ پروردگار نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ اسی طرح پوچھا (اور میں یہی جواب دیتا رہا)۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے کندھوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھا یہاں تک کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی (جس کا اثر یہ ہوا کہ) میرے سامنے ہر چیز ظاہر ہوگئی اور تمام باتیں جان گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد ﷺ! میں نے عرض کیا کہ پروردگار میں حاضر ہوں فرمایا (اب بتاؤ) مقربین فرشتے کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کی کہ گناہوں کو مٹا دینے والی چیزوں کے بارے میں! اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ کون سی چیزیں ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ جماعت کے واسطے (مسجدوں میں) آجانا اور نماز پڑھ کر (اور دعا وغیرہ کے لئے) مسجد میں بیٹھے رہنا اور سختی کے ساتھ (جس وقت کہ سردی یا بیماری کی وجہ سے پانی کو استعمال کرنا تکلیف دہ معلوم ہو) اچھی طرح وضو کرنا اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور کس چیز کے بارے میں بحث کر رہے ہیں میں نے عرض کیا کہ درجات کے بارے میں فرمایا وہ کیا ہیں میں نے عرض کیا کہ غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا نرم لہجے میں بات کرنا اور رات کو اس وقت (تہجد کی) نماز پڑھنا جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اچھا اب اپنے لئے جو چاہو دعا کرو۔ چناچہ میں نے دعا کی کہ اے اللہ! میں تجھ سے نیکیوں کے کرنے، برائیوں کے چھوڑنے، مسکینوں کی دوستی، اپنی بخشش اور تیری رحمت کا سوال کرتا ہوں اور جب تو کسی قوم میں گمراہی ڈالنا چاہئے تو مجھے بغیر گمراہی کے اٹھالے اور میں تجھ سے تیری محبت (یعنی یہ کہ میں تجھے دوست رکھوں یا تو مجھے دوست رکھے) اور اس آدمی کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے ( یہ کہ میں اسے دوست رکھوں یا وہ مجھے دوست رکھے) اور ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت سے نزدیک کر دے گا سوال کرتا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے (ہم سے) فرمایا کہ یہ خواب بالکل سچ ہے لہٰذا تم اسے یاد کرو اور پھر لوگوں کو سکھلاؤ (مسند احمد بن حنبل، جامع ترمذی) اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ میں نے محمد بن اسمعیل سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے)۔

تشریح
اس حدیث کی وضاحت اسی باب کی حدیث نمبر ٣٤ کی تشریح میں کی جا چکی ہے اس لئے یہاں اب مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے تاہم اتنی بات سمجھ لیجئے کہ اس حدیث سے بصراحت معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا تھا اور یہ سوال و جواب حالت خواب ہی میں ہوئے تھے۔
Top