مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 705
وَعَنِ السَّآئِبِ بْنِ ےَزِےْدَ ص قَالَ کُنْتُ نَائِمًا فِی الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِیْ رَجُلٌ فَنَظَرْتُ فَاِذَا ھُوَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ص فَقَالَ اذْھَبْ فَاْتِنِیْ بِہٰذَےْنِ فَجِئْتُہُ بِھِمَا فَقَالَ مِمَّنْ اَنْتُمَا اَوْ مِنْ اَےْنَ اَنْتُمَا قَالَا مِنْ اَھْلِ الطَّآئِفِ قَالَ لَوْ کُنْتُمَا مِنْ اَھْلِ الْمَدِےْنَۃِ لَاَوْجَعْتُکُمَا تَرْفَعَانِ اَصْوَاتَکُمَا فِیْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم (صحیح البخاری)
مساجد اور نماز کے مقامات کا بیان
اور حضرت سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ میں (ایک روز) مسجد میں پڑا سو رہا تھا کہ کسی آدمی نے میرے کنکر ماری میں نے دیکھا کہ وہ حضرت عمر ابن خطاب ؓ ہیں۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ تم جا کر ان دونوں آدمیوں کو میرے پاس لاؤ۔ (جو مسجد میں بلند آواز سے باتیں کر رہے تھے) میں ان کو بلا لایا حضرت عمر فاروق ؓ نے پوچھا تم کون ہو؟ یا فرمایا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں! حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ مدینہ کے رہنے والے ہوتے تو میں تم کو سزا دیتا (یعنی مارتا۔ لیکن چونکہ تم لوگ یہاں کے رہنے والے نہیں ہو اور آداب مسجد سے واقف نہیں ہو یا یہ کہ مسافر ہو اس لئے عفو و شفقت کے مستحق ہو اور فرمایا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم لوگ رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں زور زور سے باتیں کر رہے ہو۔ (صحیح البخاری )

تشریح
جملہ اَوْمِنْ اَیْنَ اَنْتُمَا میں لفظ اَوْ شک کے لئے ہے یعنی راوی کو شک واقع ہو رہا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے یہ فرمایا کہ تم کون ہو؟ یا یہ فرمایا کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو۔ بہر حال مسجد میں بلند آواز سے باتیں کرنا مکروہ ہے اگرچہ موضوع سخن علم ہی کیوں نہ ہو۔
Top