مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1227
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ص قَالَ حُدِّثْتُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ صَلٰوۃُ الرَّجُلِ قَاعِدًا نِصْفُ الصَّلٰوۃِ قَالَ فَاَتَےْتُہُ فَوَجَدتُّہُ ےُصَلِّیْ جَالِسًا فَوَضَعْتُ ےَدِیْ عَلٰی رَاْسِہٖ فَقَالَ مَالَکَ ےَا عَبْدَاللّٰہِ بْنَ عَمْرٍو ص قُلْتُ حُدِّثْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِ نََّکَ قُلْتَ صَلٰوۃُ الرَّجُلِ قَاعِدًا عَلٰی نِصْفِ الصَّلٰوۃِ وَاَنْتَ تُصَلِّیْ قَاعِدًا قَالَ اَجَلْ وَلٰکِنِّیْ لَسْتُ کَاَحَدٍ مِّنْکُمْ۔(صحیح مسلم)
وہ دو خوش نصیب جن سے اللہ تعالیٰ بہت خوش ہوتا ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے یہ حدیث بیان کی گئی کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا (بغیر عذر) بیٹھ کر (نفل) نماز پڑھنے والے کی نماز (کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے مقابلے میں آدھی ہوتی ہے حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں (ایک دن) رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا (اتفاق سے) رسول اللہ ﷺ اس وقت بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے (جب نماز سے فارغ ہوئے تو) میں نے آپ ﷺ کے سر مبارک پر اپنا ہاتھ رکھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمرو! کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے تو یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی نماز آدھی ہوتی ہے اور اب آپ ﷺ ہی بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ایسا ہی ہے (یعنی تم نے جو کچھ سنا ہے) صحیح ہے لیکن میں تم جیسا تو نہیں ہوں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اہل عرب کی عادت ہے کہ جب کوئی آدمی کسی سے کوئی تعجب کی بات دیکھتا ہے تو اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتا ہے اور ان کے نزدیک ایسا کرنا کوئی خلاف ادب نہیں ہے بلکہ یہ کمال محبت اور انتہائی بےتکلفی کے سبب سے ہوتا ہے چونکہ حضرت عبداللہ بن عمرو کو رسول اللہ ﷺ سے انتہا درجے کی محبت اور بےتکلفی تھی اس لئے جب آپ ﷺ نے نماز پڑھ لی تو انہوں نے بھی ازراہ تعجب اپنا ہاتھ آپ ﷺ کے سر مبارک پر رکھا اور انہیں تعجب اس بات پر ہوا کہ رسول اللہ ﷺ تو افضل بات پر عمل کیا کرتے تھے پھر آپ ﷺ نے بیٹھ کر نماز کیوں پڑھی۔ رسول اللہ ﷺ کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ نہ تو دوسروں پر مجھے اور نہ مجھ پر دوسروں کو قیاس کرو کیونکہ یہ تو صرف میری خصوصیت ہے کہ بیٹھ کر بھی نماز پڑھتا ہوں تو میری نماز ناقص نہیں ہوتی ہے، میں چاہے جس طرح بھی نماز پڑھوں میری نماز پوری ادا ہوتی ہے۔
Top