مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1219
وَعَنْ اَنَسٍ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لِےُصَلِّ اَحَدُکُمْ نَشَاطَہُ وَاِذَا فَتَرَ فَلْےَقْعُدْ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
اس وقت تک عبادت کرنی چاہے جب تک دل گلے
اور حضرت انس ؓ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا تمہیں چاہے کہ اسی وقت تک نماز پڑھو جب تک کہ خوش دلی رہے اور جب طبیعت سست ہوجائے تو بیٹھ جاؤ۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آخرت کی راہ سعادت اور بھلائی اختیار کرنے والے کو چاہیے کہ عبادت میں اپنی بساط اور طاقت کے مطابق کوشش کرے طاعت کے معاملے میں میانہ روی اختیار کرے اور تنگ دلی و انقباض کے ساتھ عبادت کرنے سے احتراز کرے۔ عبادت اسی وقت تک کرے جب تک کہ بشاشت قلبی اور سکون و اطمینان حاصل رہے۔ جب طبیعت سست ہوجائے تو عبادت ترک کر دے، اگر کوئی آدمی عبادت کرتے کرتے تھک جائے اور سست ہوجائے، نیز عبادت چھوڑ کر اس خیال سے کسی امر مباح میں مشغول ہوجائے مثلاً سو جائے یا گفتگو وغیرہ میں لگ جائے تاکہ آئندہ عبادت کے لئے مزید بشاشت و خوشی اور اطمینان و سکون حاصل ہو سکے تو اس کی یہ مشغولیت عبادت وطاعت ہی میں شمار کی جاتی ہے۔ اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ عالم کی نیند ( بھی) عبادت ہے کسالت و ملالت اور طبیعت کی تنگی کے وقت نفل اعمال کو ترک کردینے کے سلسلے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں، چناچہ ایسے موقعہ پر جبکہ طبیعت میں اضمحلال اور سستی پیدا ہوجائے نفل اعمال کو ترک کردینے کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ عمل کا نفس پر گراں ہونا آخر کار عمل کے بالکل چھوٹ جانے یا اس میں نقصان واقع ہوجانے کا سبب بن جاتا ہے۔ لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ نفس کو بہت زیادہ عبادت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ طبیعت عبادت کی مشقت و ریاضت کی خوگر ہوجائے، کاہل طبیعت، آرام طلب اور سست مزاج لوگوں کی طرح ہوجانا چاہیے جو کہ مختصر سی عبادت اور تھوڑے سے عمل میں بھی تھک جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عبادت اور ریاضت و مجاہدہ کو ادھورا چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن بہت زیادہ عبادت کرنے کی اگر عادت پڑجاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ عبادت طبیعت پر گراں نہیں ہوتی، چناچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو پہلے دو رکعت نماز پڑھنی اور قرآن کے ایک پارے کی تلاوت بھی گراں گذرتی تھی اور اس کی وجہ سے ان کی طبیعت میں سستی و اضمحلال پیدا ہوجاتا تھا انہوں نے ہی جب زیادہ عبادات اور ریاضت و مجاہدہ کی عادت پیدا کرلی اور اپنے نفس اور اپنی طبیعت کو راہ الٰہی کی سعادتوں کے حصول کی خاطرمشقت و محنت کا عادی بنا لیا تو انہیں سو رکعت نماز پڑھنی اور قرآن کے دس پاروں کی تلاوت بھی آسان معلوم ہونے لگی۔
Top