مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1216
عَنْ اَنَسٍ ص قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُفْطِرُ مِنَ الشَّھْرِ حَتّٰی یَظُنَّ اَنْ لَّا ےَصُوْمَ مِنْہُ وَےَصُوْمُ حَتّٰی یَظُنَّ اَنْ لاَّ ےُفْطِرَ مِنْہُ شَےْئًا وَّکَانَ لَا تَشَآءُ اَنْ تَرَاہُ مِنَ الَّےْلِ مُصَلِّےًا اِلَّا رَاَےْتَہُ وَلَا نَآئِمًا اِلَّا رَاَےْتَہُ۔(صحیح البخاری)
اعمال میں میانہ روی اختیار کرنے کا بیان
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ مہینہ (کے اکثر ایام) میں (نفل) روزہ نہ رکھتے، یہاں تک کہ ہم گمان کرتے کہ آپ ﷺ اس مہینے میں روزہ نہیں رکھیں گے اور آپ ﷺ مہینہ ( اسی مہینے یا دوسرے مہینے کے اکثر ایام) میں روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم گمان کرتے کہ اب (اس مہینے کا) کوئی دن بھی آپ ﷺ بغیر روزے کے نہیں چھوڑیں گے اور اگر آپ ﷺ کو رات کو نماز پڑھتے ہوئے تم دیکھنا چاہتے ہو تو نماز پڑھتے ہوئے بھی دیکھ لیتے اور اگر آپ ﷺ کو رات کو سوتے ہوئے تم دیکھنا چاہتے تو سوتے ہوئے ہی دیکھ لیتے۔ (بخاری)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اعمال نفل میں اعتدال کی راہ اختیار فرماتے تھے چناچہ نہ تو آپ ﷺ ہمیشہ روزہ ہی رکھتے تھے کہ افراط یعنی زیادتی لازم آتی اور نہ ہمیشہ بغیر روزے کے ساتھ رہتے تھے کہ تفریط یعنی کمی لازم آتی، بلکہ آپ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ ہر مہینے میں کچھ دن تو آپ ﷺ روزے سے رہا کرتے تھے اور کچھ دن بغیر روزے کے۔ اسی طرح نفل نماز کے سلسلے میں بھی آپ ﷺ کا معمول یہ تھا کہ رات کو آپ ﷺ سوتے بھی تھے اور نماز بھی پڑھتے تھے نہ تو تمام رات سوتے ہی تھے اور نہ تمام رات نماز ہی میں گزارتے تھے۔ غرضیکہ تمام امور میں آپ ﷺ کا عمل اوسط درجے کا تھا، نہ زیادہ تھا اور نہ کم تھا۔
Top