مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1204
وَعَنْ عَمْرِوبْنِ عَنْبَسَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ الْاٰخِرِ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَکُوْنُ مِمَّنْ یَّذْکُرُ اﷲَ فِیْ تِلْکَ السَّاعَۃِ فَکُنْ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ غَرِیْبٌ اِسْنَادًا۔
نماز تہجد پڑھنے والوں کی خوش بختی
اور حضرت عمرو بن عنبسہ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا پروردگار اپنے بندے سے سب سے زیادہ قریب آخری شب میں ہوتا ہے لہٰذا اگر تم بھی اس وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والوں میں ہوسکتے ہو تو ضرور ہو یعنی اس بات کی کوشش کرو تم بھی ان خوش نصیب مسلمانوں میں شمار کئے جاؤ جو اس وقت اپنے پروردگار کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں اور سعادت میں خوش بختی کے خزانے اپنے دامن میں سمیٹ کر پروردگار کی رضا و خوشنودی کو اپنے قریب تر پاتے ہیں) امام ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور سند کی وجہ سے غریب ہے۔

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات کا آخر حصہ بایں طور افضل و اشرف ہے کہ وہ اپنے دامن میں پروردگار کی رحمتوں اور اس کی عنایتوں کے خزانے سمیٹے ہوئے ہوتا ہے، اب یہ قسمت اور مقدروالوں کی بات ہے کہ کون اس خزانے سے مستفید ہوتا ہے اور کون محروم رہ جاتا ہے۔ چنانچہ جن کی طبیعت سعادت مند ہوتی ہے وہ رات کے اس حصے میں اٹھ کر رحمت الٰہی کے خزانے سے اپنے دامن کو بھرتے ہیں اور جو حرماں نصیب ہوتے ہیں وہ شیطان کی لوریاں کھا کھا کر نہ صرف اپنے دل و دماغ اور جسم کو نیند کے حوالے کئے ہوتے ہیں بلکہ ان کی سعادت اور ان کی خوش بختی بھی غفلت و سستی کی نذر ہوجاتی ہے۔ بہر حال پروردگار کا اپنے بندے سے قریب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی رضا و خوشنودی بندے سے قریب تر ہوتی ہے اور اس کی رحمتوں کا سایہ بندے کے اوپر ہوتا ہے۔ آخری نصف رات سے رات کا وہ حصہ مراد ہے جس کی ابتداء ثلث آخر (یعنی آخری تہائی) سے ہوتی ہے اور وہی وقت تہجد کی نماز کے لئے اٹھنے کا ہوتا ہے۔ حضرت عمرو بن عنبسہ جنہیں لسان نبوت سے حدیث میں مذکورہ سعادت حاصل کرنے کے لئے فرمایا جا رہا ہے حضرت حق جل مجدہ کی درگاہ کبریائی کے ایک مجذوب اور دربا رسالت ﷺ کے ایک مقرب اور زی شان خادم تھے ان کی بہت زیادہ عظمت اور فضیلت ہے۔ ابتداء ظہور نبوت میں جبکہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں کفر و شرک سے اکڑی ہوئی ہوئی گردنوں کو خدائے واحد کے حضور میں جھکانے کی سعی میں مصروف تھے اور آپ ﷺ کی تبلیغ کی ابتداء ہوچکی تھی تو حضرت عمرو بن عنبسہ اپنے وطن میں تھے یکایک ان کے دل میں نور توحید ضوفشاں ہوا اور شرک و بت پرستی کی کراہیت و نفرت نے بےچین کردیا، جب ہی سنا کہ ایک آدمی مکہ میں پیدا ہوا ہے جو لوگوں کو توحید کی طرف بلاتا ہے اور بتوں کی عبادت سے منع کرتا ہے، یہ سنتے ہی قلب مضطر نے فوراً ہی مکہ پہنچنے پر مجبور کردیا، انہوں نے مکہ پہنچ کر رسول اللہ ﷺ کے بارے میں دریافت کیا، رسول اللہ (فداہ روحی) اس زمانے میں کفار کی شدید مخالفت اور دشمنان دین کی بےپناہ سختیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے دشمنوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر اللہ کے دین کی تبلیغ اور اس کی عبادت میں مصروف تھے، حضرت عمرو بن عنبسہ نے لوگوں سے پوچھا کہ تم میں کون آدمی پیدا ہوا ہے جو تمہاری روش اور تمہارے راستے سے ہٹ کر دوسرے دین کی طرف دنیا کو بلاتا ہے؟ لوگوں نے کہا ہے کہ ہاں ایک دیوانہ ہے (آپ ﷺ کی عقل و دانش پر دونوں جہان قربان) جس نے اپنے باپ دادا کا طریقہ اور راستہ چھوڑ دیا ہے اور ایک نئی رسم نکالی ہے۔ دیوانہ کنی ہر دوجہانش بخشی دیوانہ تو ہر دو جہاں راچہ کند انہوں نے پوچھا کہ اچھا وہ کہاں ملیں گے؟ لوگوں نے کہا کہ وہ آدمی آدھی رات کو باہر نکالتا ہے اور اس خانہ کعبہ کے اردگرد گھومتا ہے۔ حضرت عمرو بن عنبسہ آدھی رات کے وقت حرم شریف میں آئے اور کعبۃ اللہ کے پردہ مبارک میں چھپ کر کھڑے ہوئے اچانک دیکھا کہ ایک آدمی ظلمتوں کے پردوں کو چیرتا ہوا نور کی ایک دنیا اپنے جلوؤں میں لئے نمودار ہوا۔ اس آدمی کی سراپا کشش، آدمییت اور نورانی چہرے و جسم کا یہ عالم کہ مہر و ماہ اس کے سامنے شرمندہ اور دنیا کے تمام لوگ اس کے پاک آستانے کی خاک ﷺ عمرو فوراً پردہ سے نکل کر باہر آئے اور نمودار ہونے والے آدمی کو سلام کیا اور پوچھا کہ آپ کون ہیں اور آپ کا دین کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں ﷺ اور میرا دین لا الہ الا اللہ ہے یہ خوشی سے جھوم اٹھے اور فورا بولے کہ میں بھی اس دین کو پسند کرتا ہوں چناچہ سرکار دو عالم ﷺ کے سامنے جبھی ایمان لائے، اس طرح حضرت عمرو بن عنبسہ تیسرے یا چوتھے مسلمان ہیں یعنی ان سے پہلے صرف دو یا تین آدمی ہی اسلام کی دولت سے مشرف ہوچکے تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے انہیں رخصت کیا اور فرمایا کہ میرے پروردگار نے مجھ سے ایک وعدہ کیا ہے۔ جب وہ وعدہ پورا ہوگا تو میرے پاس آنا چناچہ رسول اللہ ﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو عمرو بن عنبسہ آپ ﷺ کے پاس مدینہ پہنچ گئے اور آپ ﷺ کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل کی اور نگاہ نبوت کی کرشمہ سازی نے آپ ﷺ کو درجہء کمال پر پہنچا دیا۔
Top