مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1201
وَعَنْ عَائِشَۃَ رضی اللّٰہ عنھا قَالَتْ کَانَ تَعْنِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلمےَنَامُ اَوَّلَ الَّےْلِ وَےُحْیِ اٰخِرَہُ ثُمَّ اِنْ کَانَتْ لَہُ حَاجَۃٌ الِیٰ اَھْلِہٖ قَضٰی حَاجَتَہُ ثُم َّےَنَامُ فَاِنْ کَانَ عِنْدَ النِّدَآءِ الْاَوَّلِ جُنُبًا وَّا ثَبَ فَاَفَاضَ عَلَےْہِ الْمَآءَ وَاِنْ لَّمْ ےَکُنْ جُنُبًا تَوَضَّاَ لِلصَّلٰوۃِ ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَےْنِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
رات کی عبادت میں رسول اللہ ﷺ کا معمول
اور ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ سرور کونین ﷺ (رات اس طرح بسر کرتے تھے کہ) آپ ﷺ رات کے ابتدائی حصے میں تو سوتے تھے اور رات کے آخری حصہ کو زندہ رکھتے (یعنی بیدار رہتے اور عبادت کرتے تھے) پھر اگر آپ کو اپنی زوجہ مطہرہ سے ( ہم بستری کی) ضرورت ہوتی تو اپنی ضرورت پوری کرتے اور سو جاتے، چناچہ اگر آپ (فجر کی) پہلی اذان کے وقت حالت ناپاکی میں ہوتے تو اٹھتے اور اپنے بدن پر پانی ڈالتے (یعنی نہاتے) اور اگر ناپاکی کی حالت میں نہ سوتے تو نماز کے لئے وضو کرتے اور پھر فجر کی سنت کی دو رکعتیں پڑھتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
شمائل میں حضرت عائشہ ؓ سے یہ روایت تفصیلی طور پر اس طرح بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ رات کے ابتدائی حصہ میں (یعنی عشاء کی نماز کے بعد سے آدھی رات تک) سوتے پھر رابع و خامس سادس یعنی چوتھے و پانچویں و چھٹے حصے میں تہجد کی نماز کے لئے اٹھتے جب سحر کا وقت ہوتا تو وتر پڑھتے پھر بستر پر (آرام فرمانے کے لئے) تشریف لے آتے (کیونکہ نماز تہجد وغیرہ سے فراغت کے بعد اور نماز فجر سے پہلے کچھ دیر تک آرام کرنا مستحب ہے تاکہ فجر کی نماز اور اس کے بعد کے اوراد وظائف کی ادائیگی کے لئے بشاشت و قوت حاصل ہو سکے) پھر اگر کسی دن آپ کو اپنی زوجہ مطہرہ سے ہم بستری کی ضرورت ہوتی تو اسے پورا کرتے یہاں تک کہ آپ ﷺ فجر کی اذان سن کر اٹھتے اور اگر حالت ناپاکی میں ہوتے تو اپنے بدن پر پانی ڈالتے یعنی نہاتے اور اگر حالت ناپاکی میں نہ ہوتے تو وضو کرتے اور فجر کی سنت کی دونوں رکعتیں گھر ہی میں پڑھ کر نماز کے لئے باہر مسجد میں تشریف لے جاتے۔ اس تفصیل کی روشنی میں حدیث بالا کے ابتدائی جزء رات کے ابتدائی حصے میں سوتے اور رات کے آخری حصہ کو زندہ رکھتے تھے کے معنی واضح ہوگے ہیں۔ بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ وظیفہ زوجیت سے فراغت کے بعد وضو کرتے ہوں گے، اس کے بعد پھر سوتے ہوں گئے۔ ندائے اول (پہلی اذان) سے مراد اذان متعارف ہے اور دوسری اذان تکبیر کو کہتے ہیں۔ حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ آدھی رات تو سوتے تھے اور آدھی رات اپنے پروردگار کی عبادت میں گذارتے تھے، کیونکہ اول سدس یعنی رات کے ابتدائی چھٹے حصے میں عشاء تک جاگتے تھے پھر عشاء کے بعد دوسرے تیسرے سدس میں آرام فرماتے تھے پھر چوتھے اور پانچویں سدس میں بیدار رہتے اور چھٹے میں سو جاتے اس طرح تین سدس تو آپ ﷺ سوتے اور تین سدس بیدار رہتے۔ ﷺ
Top