مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1200
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍ وص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَحَبُّ الصَّلٰوۃِ اِلَی اللّٰہِ صَلٰوۃُ دَاؤ،دَ وَاَحَبُّ الصِّےَامِ اِلَی اللّٰہِ صِےَامُ دَاؤ،دَ کَانَ ےَنَامُ نِصْفَ اللَّےْلِ وَےَقُوْمُ ثُلُثَہُ وَےَنَامُ ثُلُثُہُ وَےَصُوْمُ ےَوْمًا وَّےُفْطِرُ ےَوْمًا۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نماز اور روزے
اور حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو تمام نمازوں میں سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نماز زیادہ پسند اور تمام روزوں میں سے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے روزے زیادہ پسند ہیں اور ان کی نماز کی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ وہ آدھی رات سوتے اور تہائی رات قیام کرتے (یعنی نماز پڑھتے) اور پھر رات کے چھٹے حصے میں سوتے اور وہ (روزہ اس طرح رکھتے تھے) ایک دن تو روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو چونکہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی نماز اور ان کے روزے کا یہ طریقے بہت پسند تھا اس لئے اس طریقہ کے مطابق پڑھی جانے والی نفل نماز اور رکھے جانے والے نفل روزے اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔ مذکورہ بالا طریقے سے رات کو پڑھی جانے والی نماز اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب اس لئے ہے کہ جب کوئی آدمی رات کے دو تہائی حصے سوئے گا اور اس کا نفس اتنی دیر تک آرام کرلے گا تو اس کی عبادت پوری فرحت و بشاشت اور قلب و دماغ کے پورے نشاط کے ساتھ ادا ہوگی۔ اس طرح مذکورہ بالا طریقے سے رکھے جانے والے روزے بھی اس لئے پسندیدہ ہیں کہ اس میں نفس کو بہت زیادہ محنت و مشقت ہوتی ہے جو حاصل عبادت ہے۔
Top