مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1174
عَنْ حُذَیْفَۃَ اَنَّہ، رَأَی النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّی مِنَ اللَّیْلِ فَکَانَ یَقُوْلُ اَﷲُاَکْبَرُ ثَلاَ ثًا ذُوالْمَلَکُوْتِ وَالْجَبَرُوْتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظْمَۃِ ثُمَّ اسْتَفْتَحَ فَقَرَأَ الْبَقَرَۃَ ثُمَّ رَکَعَ فَکَانَ رَکُوْعُہ، نَحْوًا مِنْ قِیَامِہٖ فَکَانَ یَقُوْلُ فِی رُکُوْعِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ ثُمَّ رَفَعَ رَأَسَہ، مِنَ الرُّکُوْعِ فَکَانَ قِیَامُہ، نَحْوًا مِنْ رُکُوْعِہٖ یَقُوْلُ لِرَبِّیَ الْحَمْدُ ثُمَّ سَجَدَ فَکَانَ سُجُوْدُہ، نَحْوًا مِّنْ قِیَامِہٖ فَکَانَ یَقُوْلُ فِی سُجُوْدِہِ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاٰعْلٰی ثُمَّ رَفَعَ رَأَسَہ، مِنَ السُّجُوْدِ وَکَانَ یَقْعُدُ فِیْمَا بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ نَحْوًا مِّنْ سُجُوْدِہٖ وَکَانَ یَقُوْلُ رَبِّ اغْفِرْلِی رَبِّ اغْفِرْلِی فَصَلَّی اَرْبَعَ رَکَعَاتٍ قَرَأَ فِیْھِنَّ الْبَقَرَۃَ وَاٰلِ عِمْرَانَ وَالنِّسَآءَ وَالْمَائِدَۃَ اَوِلْاَنْعَامَ شََکَّ شُعْبَۃُ۔ (رواہ ابوداؤد)
رسول اللہ ﷺ کی نماز تہجد کی کیفیت
حضرت حذیفہ ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے سرور کائنات ﷺ کو رات کو (تہجد کی) نماز پڑھتے دیکھا ہے چناچہ (ان کا بیان ہے کہ) رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر یہ کہا ذوالملکوت والجبروت والکبریاء والعظمۃ ( اللہ تعالیٰ، ملک، غلبہ، بڑائی اور بزرگی کا مالک ہے) اس کے بعد آپ ﷺ نے سبحانک اللہم پڑھ کر سورت بقرہ کی قرأت فرمائی اور اس کے بعد رکوع کیا آپ ﷺ کا رکوع (تقریباً ) قیام کے برابر تھا رکوع میں آپ ﷺ نے سبحان رب العظیم کہا اور آپ کا کھڑا ہونا یعنی قومہ (تقریباً آپ کے رکوع کے برابر تھا اور (رکوع سے اٹھ کر سمع اللہ لم حمدہ کہنے کے بعد) آپ ﷺ کہتے لربی الحمد (میرے پروردگار ہی کے لئے ساری تعریف ہے) پھر سجدہ کیا اور آپ ﷺ کے سجدہ کی مقدار آپ کے قومے کے برابر تھی اور سجدے میں آپ ﷺ کہتے سبحان ربی الاعلی پھر آپ ﷺ نے سجدہ سے سر اٹھایا اور آپ ﷺ دونوں سجدوں کے درمیان (یعنی جلسہ میں) اپنے سجدے کے برابر بیٹھتے اور یہ کہتے رب اغفرلی رب اغفرلی (اے میرے رب میری بخش کر اے میرے رب مجھے بخش دے) اسی طرح آپ ﷺ نے چار رکعتیں پڑھیں۔ اور ان (چاروں رکعتوں میں) سورت بقرہ، سورت ال عمران، سورت نساء اور سورت مائدہ یا سورت انعام پڑھیں (حدیث کے راوی) شعبہ کو شک واقع ہوگیا ہے (کہ حدیث میں آخری سورت مائدہ کا ذکر گیا تھا یا انعام کا )۔

تشریح
آپ کا رکوع قیام کے برابر تھا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حقیقۃً آپ ﷺ کا رکوع تقریباً قیام کے برابر تھا، یا یہ کہ آپ ﷺ رکوع میں اتنی ہی دیر تک رہتے تھے جتنی دیر تک قیام کرتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ نے معمول سے کچھ زیادہ قیام کو طویل کیا تھا اسی طرح رکوع کو بھی مقدار معمول سے زیادہ دراز کیا، ہاں کبھی دونوں یعنی قیام اور رکوع برابر ہوتے تھے جیسا کہ نسائی نے حضرت عوف بن مالک کی روایت نقل کی ہے۔ رب اغفرلی دو مرتبہ ذکر کیا گیا ہے اس سلسلے میں یہ احتمال بھی ہے کہ آپ ﷺ رب اغفرلی دو مرتبہ کہتے تھے اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے احتمال دو سے زائد بہت مرتبہ کہنا ہو۔ وا اللہ اعلم۔
Top