مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1162
عَنْ عَآئِشَۃَرضی اللہ عنہا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےُصَلِّیْ فِےْمَا بَےْنَ اَنْ ےَّفْرُغَ مِنْ صَلٰوۃِ الْعِشَآءِ اِلَی الْفَجْرِ اِحْدٰی عَشْرَۃَ رَکْعَۃً ےُّسَلِّمُ مِنْ کُلِّ رَکْعَتَےْنِ وَےُؤْتِرُ بِوَاحِدَۃٍ فَےَسْجُدُ السَّجْدَۃَ مِنْ ذَالِکَ قَدْرَ مَا ےَقْرَاُ اَحَدُکُمْ خَمْسِےْنَ اٰےَۃً قَبْلَ اَنْ ےَّرْفَعَ رَاْسَہُ فَاِذَا سَکَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَتَبَےَّنَ لَہُ الْفَجْرُ قَامَ فَرَکَعَ رَکْعَتَےْنِ خَفِےْفَتَےْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلٰی شِقِّہِ الْاَےْمَنِ حَتّٰی ےَأْتِےَہُ الْمُؤَذِّنُ لِلْاِقَامَۃِ فَےَخْرُجُ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
عشاء و فجر کے درمیان گیارہ رکعت
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ سرور کائنات ﷺ نماز عشاء سے فارغ ہو کر نماز فجر تک (اکثر) گیارہ رکعت نماز پڑھا کرتے تھے اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے اور (پھر آخر میں) ایک رکعت کے ساتھ وتر کرلیا کرتے تھے اور اس رکعت میں اتنا طویل سجدہ کرتے جتنی دیر میں کوئی آدمی اپنا سر اٹھانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑھ لے پھر جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہوجاتا اور فجر طلوع ہوجاتی یعنی صبح کی روشنی پھیلنے لگتی تو آپ ﷺ کھڑے ہوتے اور دو رکعتیں ہلکی ( یعنی فجر کی سنتیں) پڑھتے اور (اس کے بعد تھوڑی دیر کے لئے) اپنی داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے تھے یہاں تک کہ مؤذن تکبیر کے لئے (یعنی تکبیر کہنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے) آپ ﷺ کے پاس آتا تو آپ ﷺ نماز کے لئے (مسجد) تشریف لے جاتے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حدیث کے الفاظ ویوتر بواحدۃ کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ﷺ وتر کے لئے ایک رکعت علیحدہ پڑھتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ گیارہ رکعتیں اس طرح پڑھا کرتے تھے کہ آخری دونوں رکعتوں یعنی نویں اور دسویں کے ساتھ ایک رکعت بڑھا کر تینوں کو وتر بنادیا کرتے تھے۔ علامہ ابن حجر شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں، اوّل یہ کہ وتر کی کم سے کم ایک رکعت ہے یعنی وتر کی ایک رکعت علیحدہ سے پڑھی جاسکتی ہے، دوم یہ کہ تہجد کی نماز میں ہر دو رکعت پر سلام پھیر دینا چاہیے، چناچہ حضرت امام شافعی، حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا یہی مسلک ہے۔ فیسجد السجدۃ الخ سے بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رکعت کا سجدہ بقدر مذکورہ طویل کرتے تھے لیکن اس کا مفہوم یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ صرف وتر کے سجدوں میں سے ایک سجدہ یا وتر کے سب سجدے بقدر مذکور طویل کرتے تھے۔ بعض مقامات پر کچھ لوگ وتر کے بعد کیفیت معروفہ کے ساتھ دو سجدے کرتے ہیں اور بعض ضعیف فقہی روایات میں ان کی فضیلت بھی مذکور ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ احادیث میں ان دونوں سجدوں کا قطعاً کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ فقہ کی وہ روایت جو معتمد و مختار ہیں ان میں ان کا کوئی ذکر ہے۔ نیز حرمین شر یفین بلکہ پورے عرب میں کہیں بھی یہ سجدے نہیں کئے جاتے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی منقول ہے جس میں ان سجدوں کو اختراع محض کا درجہ دیا گیا ہے پھر یہ کہ چاروں ائمہ میں سے کوئی بھی امام اس کے نہ مسنون ہونے کا قائل ہے اور نہ ہی مستحب ہونے کا بلکہ بلادعرب کے اکثر حنیفہ تو اسے جانتے بھی نہیں اور بعض علماء نے اسے مکروہ قرار دیا ہے، بہر حال اگر کسی جگہ یہ طریقہ رائج ہے تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ رکعتیں خفیفتین یعنی فجر کی سنتیں ہلکی پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ سنت کی دونوں رکعتوں میں قل یا ایھا الکا فرون اور قل ھو اللہ پڑھا کرتے تھے اور یہی مستحب ہے مگر لازم نہیں ہے۔ فجر کی سنتیں پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے آپ ﷺ اس لئے لیٹ جاتے تھے تاکہ تمام رات عبادت الٰہی اور نماز میں مشغول رہنے کی وجہ سے جو تکان وغیرہ پیدا ہوجاتا تھا وہ تھوڑی دیر آرام کرلینے سے ختم ہوجائے اور فرض پوری چستی اور بشاشت کے ساتھ ادا ہوں، لہٰذا مختار یہ ہے کہ جو آدمی رات کو عبادت الہٰی اور ذکر اللہ وغیرہ میں مشغول رہے اس کے لئے فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیر کے لئے بغرض استراحت لیٹ جانا مستحب ہے۔
Top