مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1159
وَعَنْ عَمْرِوبْنِ عَطَآءٍ رحمۃ اللّٰہ علیہ قَالَ اِنَّ نَافِعَ بْنَ جُبَےْرٍ اَرْسَلَہُ اِلَی السَّآئِبِ ےَسْئَلُہُ عَنْ شَیءٍ رَاٰہُ مِنْہُ مُعَاوِےَۃُ فِی الصَّلٰوۃِ فَقَالَ نَعَمْ صَلَّےْتُ مَعَہُ الْجُمُعَۃَ فِیْ الْمَقْصُوْرَۃِ فَلَمَّا سَلَّمَ الْاِمَامُ قُمْتُ فِیْ مَقَامِیْ فَصَلَّّےْتُ فَلَمَّا دَخَلَ اَرْسَلَ اِلَیَّ فَقَالَ لَا تَعُدْ لِمَا فَعَلْتَ اِذَا صَلَّےْتَ الْجُمُعَۃَ فَلَا تَصِلْھَا بِصَلٰوۃٍ حَتّٰی تَکَلِّمَ اَوْ تَخْرُجَ فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَمَرَنَا بِذَالِکَ اَنَّ لَّا نُوْصِلَ بِصَلٰوۃٍ حَتّٰی نَتَکَلَّمَ اَوْ نَخْرُجَ۔(صحیح مسلم)
فرض ونوافل کے درمیان فرق کرنا چاہیے
اور حضرت عمرو ابن عطا (رح) ( تابعی) کے بارے میں منقول ہے کہ انہیں (یعنی عمرو کو) حضرت نافع ابن جبیر (رح) (تابعی) نے حضرت سائب ؓ (صحابی) کے پاس بھیجا تاکہ وہ ان سے وہ چیزیں پوچھیں جو حضرت امیر معاویہ ؓ نے انہیں نماز میں کرتے ہوئے دیکھا تھا ( اور اس سے انہیں منع کیا تھا چناچہ حضرت عمرو حضرت سائب کے پاس گئے اور ان سے اس چیز کی تفصیل معلوم کی تو) انہوں نے فرمایا کہ ہاں (ایک مرتبہ) میں نے حضرت امیر معاویہ ؓ کے ہمراہ مقصودہ میں جمعہ کی نماز پڑھی جب امام نے سلام پھیرا تو میں اسی جگہ (جہاں جمعہ کی نماز پڑھی تھی) کھڑا ہوگیا اور فرض و سنت میں کوئی امتیاز کئے بغیر جمعہ کی سنتیں پڑھنے لگا، جب حضرت امیر معاویہ (نماز سے فراغت کے بعد) اپنے مکان پر چلے گئے تو میرے پاس ایک آدمی کو یہ کہلا بھیجا کہ اس وقت تم نے جو کچھ کیا ہے آئندہ ایسا نہ کرنا، (یعنی جس جگہ نماز پڑھو اسی جگہ امتیاز پیدا کئے بغیر نفل نماز نہ پڑھنا چنانچہ) جب تم جمعہ کی نماز پڑھو تو اس (جمعہ کی فرض نماز) کو کسی ( دوسری یعنی نفل یا قضا) نماز سے نہ ملاؤ تاوقتیکہ تم کوئی گفتگو نہ کرلو یا (مسجد سے) باہر نہ نکل جاؤ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہم ایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ نہ ملائیں تاوقتکیہ (درمیان میں) بات چیت نہ کرلیں یا (مسجد سے) باہر نہ چلے جائیں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
پچھلے زمانے میں جب کہ سلاطین و امراء نمازیں پڑھنے کے لئے مسجد میں آتے تھے تو ان کی امتیازی حیثیت وشان کی پیش نظر ان کے لئے مسجد کے اندر ایک مخصوص جگہ بنادی جاتی تھی جسے مقصورہ کہا جاتا تھا، بادشاہ یا خلیفہ مسجد میں آکر اسی جگہ نماز پڑھتا تھا۔ حدیث کے الفاظ اذاصلیت الجمعۃ میں جمعہ کی قید اتفاقی اور مثال کے طور پر ہے کیونکہ جمعہ کے علاوہ بھی تمام نمازوں کا یہی حکم ہے کہ فرض کے ساتھ نفل نماز ملا کر نہ پڑھی جائے چناچہ اس کی تائید حضرت امیر معاویہ ؓ کی روایت کردہ حدیث کر رہی ہے جس میں کسی خاص نماز کے بارے میں نہیں فرمایا گیا بلکہ ہر نماز کے متعلق یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب فرض نماز پڑھ لی جائے تو نوافل پڑھنے کے لئے ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے فرض اور نوافل میں فرق و امتیاز پیدا ہوجائے مثلاً جس جگہ فرض نماز پڑھی گئی ہے اسی جگہ کوئی اور نماز (خواہ سنت مؤ کدہ ہو یا غیر مؤ کدہ) نہ پڑھی جائے بلکہ اس جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ کھڑے ہو کر پڑھی جائے تاکہ دونوں نمازوں کے درمیان امتیاز پیدا ہو سکے اور اس فرض و نفل کے درمیان التباس پیدا نہ ہو۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ او نخرج سے اسی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے اب اونخرج سے مسجد سے حقیقۃً نکلنا بھی مراد ہوسکتا ہے یعنی فرض پڑھ کر مسجد سے نکل کر گھر وغیرہ آجائے اور وہاں نوافل پڑھے جائیں اور حکماً نکلنا بھی مراد ہوسکتا ہے یعنی جس جگہ فرض نماز پڑھی ہے اس جگہ سے ہٹ کر نوافل دوسری جگہ پڑھے جائیں۔ فرض و نوافل کے درمیان نمازوں کے درمیان فرق و امتیاز پیدا کرنے کی ایک اور صورت ہے اور وہ یہ کہ جب فرض نماز پڑھ لی جائے تو اس کے بعد کسی دوسرے آدمی سے کوئی گفتگو کرلی جائے تاکہ اس سے ان دونوں نمازوں کے درمیان فرق و امتیاز پیدا ہوجائے چناچہ حتی نتکلم سے یہی بتایا جا رہا ہے۔ اتنی بات ملحوظ رہے کہ فرض و نوافل کے درمیان جس فرق و امتیاز کے لئے کہا جا رہا ہے وہ دنیاوی بات چیت اور گفتگو ہی سے حاصل ہوتا ہے ذکر اللہ وغیرہ سے وہ فرق حاصل نہیں ہوتا۔
Top