مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1129
وَعَنْ سُلَیْمَانَ مَوْلٰی مَیْمُوُنَۃَ قَالَ اَتَیْنَا ابْنَ عُمَرَ عَلَی الْبَلاَطِ وَھُمْ یُصَلُّوْنَ فَقُلْتُ اَلَاتُصَلِّی مَعَھُمْ قَالَ قَدْ صَلَّیْتُ وَاِنِّی سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ لَا تُصَلُّوْا صَلَاۃً فِی یِوْمٍ مَرَّتَیْنِ۔ (رواہ احمد بن حنبل ابوداؤد ،والنسائی )
ایک نماز کو دوبارہ نہ پڑھنے کا حکم
اور ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت سلیمان فرماتے ہیں کہ ایک روز ہم حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کے پاس مقام بلاط میں آئے لوگ اس وقت (مسجد میں) نماز پڑھ رہے تھے میں نے عبداللہ ابن عمر ؓ سے عرض کیا کہ آپ لوگوں کے ہمراہ نماز نہیں پڑھتے؟ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ نے فرمایا میں نماز پڑھ چکا ہوں اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم ایک دن (یعنی ایک وقت میں) ایک نماز دو مرتبہ نہ پڑھو۔ (ابوداؤد، سنن نسائی، مسند احمد بن حنبل)

تشریح
بلاط مدینہ منورہ میں ایک جگہ کا نام ہے جسے امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ نے مسجد سے باہر اس مقصد کے لئے بنایا تھا کہ لوگوں کو باتیں وغیرہ کرنی ہوں تو مسجد سے باہر اس جگہ کیا کریں اور مسجد میں دنیاوی امور پر مشتمل بات چیت نہ ہو۔ دوبارہ نماز پڑھنے کے حکم کی تطبیق گزشتہ احادیث سے بظاہر یہ حدیث گذشتہ احادیث سے متعارض نظر آتی ہے جو ایک نماز کو دوبارہ پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں لہٰذا اس حدیث کے حکم و گذشتہ احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ دراصل اس حدیث کے حکم کا تعلق اس آدمی سے ہے جو پہلی مرتبہ جماعت سے نماز پڑھ چکا ہو اور گذشتہ احادیث کا تعلق اس آدمی سے ہے جس نے پہلی مرتبہ نماز جماعت سے نہیں بلکہ تنہا پڑھی ہو جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے۔ یا۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ دوسری مرتبہ نماز بطریق فرضیت نہ پڑھو یعنی دوسری نماز اگر نفل جان کر اور نفل کی نیت سے پڑھو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کے الفاظ قد صلیت ( میں نماز پڑھ چکا ہوں) کی یہ تشریح کی جائے گی کہ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ شاید جمات سے نماز پڑھ چکے ہوں گے اس لئے وہ دوبارہ نماز میں شریک نہیں ہوئے یا یہ کہ جس وقت کا یہ واقعہ ہے۔ وہ فجر یا عصر و مغرب کا وقت ہوگا۔ کہ ان اوقات میں دوبارہ نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ آخر میں اتنی بات بھی سمجھ لیجئے کہ اس سلسلے میں اکثر حدیثیں عام ہیں یعنی ان احادیث سے بظاہر معلوم یہی ہوتا ہے کہ یہ حکم کہ اگر کوئی آدمی تنہا نماز پڑھ کر مسجد میں آئے اور وہاں جماعت ہو رہی ہو تو وہ جماعت میں شریک ہوجائے اور دوبارہ نماز پڑھ لے تمام اوقات کی نمازوں سے متعلق ہے لیکن مجتہدین اور علماء نے ان احادیث پر بھی نظر رکھی ہے جن سے بعض اوقات میں دوبارہ نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا گیا لہٰذا ان احادیث کے پیش نظر انہوں نے ان اوقات کو متعین کردیا ہے جن میں دوبارہ نماز پڑھ لینی چاہیے اور ان اوقات کو بھی مختص کردیا ہے جن میں دوبارہ نماز نہیں پڑھنی چاہیے چناچہ اگلی حدیث میں یہ تخصیص مذکور ہے۔
Top