مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1113
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا جِئْتُمْ اِلَی الصَّلَاۃِ وَنَحْنُ سُجُوْدٌ فَاسْجُدُوْاوَلَا تَعُدُّوْہ، شَیْئًا وَمَنْ اَدْرَکَ رَکْعَۃً فَقَدْ اَدْرَکَ الصَّلَاۃَ۔ (رواہ ابوداؤد)
رکوع میں شریک ہوجانے سے پوری رکعت ہوجاتی ہے
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم (جماعت میں شریک ہونے کے لئے) نماز میں آؤ اور مجھے سجدے کی حالت میں پاؤ تو تم بھی سجدے میں چلے جاؤ اور اس سجدے کو کسی حساب میں نہ لگاؤ ہاں جس آدمی نے (امام کے ساتھ) رکوع پا لیا تو اس نے پوری رکعت پا لی۔ (ابوداؤد)

تشریح
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی آدمی جماعت میں آکر اس حال میں شریک ہو کہ امام سجدے میں ہو اور وہ بھی سجدے میں چلا جائے تو اس کی پوری رکعت نہیں ہوتی ہاں اگر کوئی آدمی اس حال میں شریک ہو کہ امام رکوع میں ہو اور اسے رکوع مل جائے تو اس کی پوری رکعت ادا ہوجاتی ہے چناچہ اس حدیث کے پہلے جزء کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی آدمی جماعت میں اس وقت شریک ہو جب امام سجدے میں ہو تو وہ سجدے میں چلا جائے۔ مگر اس سجدے کی وجہ سے وہ اس رکعت کا ادا کرنا نہ سمجھے کیونکہ جس طرح رکوع میں شریک ہوجانے سے پوری رکعت مل جاتی ہے اسی طرح سجدے میں شریک ہونے پر پوری رکعت نہیں ملتی۔ دوسرے جزو کے علماء نے دو مطلب بیان کئے ہیں (١) حدیث میں لفظ رکعۃ سے رکوع مراد ہے اور صلوٰۃ سے رکعت یعنی جس نے امام کو رکوع میں پایا اور وہ رکوع اس نے بھی پا لیا تو اس کو پوری رکعت مل گئی (٢) رکعۃ اور صلوٰۃ دونوں اپنے حقیقی معنی میں استعمال کئے گئے ہیں اس طرح حدیث کے اس جزء کا مطلب یہ ہوگا کہ جس آدمی نے جماعت میں ایک رکعت بھی پالی تو اس نے امام کے ساتھ پوری نماز کو پالیا لہٰذا اسے نماز با جماعت کو ثواب بھی ملے گا اور جماعت کی فضیلت بھی حاصل ہوگی۔
Top