مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1112
وَعَنْ عَلِیٍّ وَمُعَاذِ ابْنِ جَبَلٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا اَتٰی اَحَدُکُمْ الصَّلَاۃَ وَالْاِمَامُ عَلٰی حَالٍ فَلْیَصْنَعْ کَمَا یَصْنَعُ الْاِمَامُ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ۔
امام کی موافقت کرنے کا حکم
حضرت علی اور حضرت معاذ ابن جبل ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی جماعت میں شریک ہونے کے لئے نماز میں آئے اور امام کسی حالت میں ہو تو جو کچھ امام کر رہا ہے وہی اسے کرنا چاہیے۔ اس حدیث کو امام ترمذی (رح) نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ افعال نماز میں اس آدمی کو امام کی اقتداء کرنی چاہیے اور اسے ارکان نماز کی ادائیگی کے سلسلے میں امام سے مقدم یا موخر نہ ہونا چاہیے۔ ابن ملک فرماتے ہیں ہے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امام جس حالت میں بھی ہو اس کی موافقت اسے کرنی چاہیے، یعنی جماعت شروع ہوجانے کے بعد اگر کوئی آدمی بعد میں شریک ہونے کے لئے آئے تو امام جس حالت میں ہو تو اسے بھی وہی حالت اختیار کرنی چاہیے اگر وہ رکوع میں ہو تو اسے بھی رکوع میں چلے جانا چاہیے اگر سجدے میں ہو تو اسے بھی سجدے میں چلے جانا چاہیے دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ جماعت شروع ہوجانے کے بعد یوں ہی کھڑے رہتے ہیں یا باتوں میں مصروف رہتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ جب امام رکوع میں جائے تو جا کر نماز میں شریک ہوں یہ طریقہ بہت غلط اور غیر شرعی ہے اس سے اجتناب ضروری ہے۔ امام ترمذی (رح) نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے تاہم علماء کا اس حدیث پر عمل ہے اور امام نووی (رح) نے بھی کہا ہے کہ حدیث کی اسناد ضعیف ہے لیکن جس حدیث پر علماء کا عمل ہوتا تھا اسے امام ترمذی صحیح قرار دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ حدیث کی صحت علماء کے عمل سے ثابت ہوجائے جیسا کہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث پہنچی کہ جو آدمی لا الہ الا اللہ ستر ہزار مرتبہ پڑھے تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے اسی طرح جس آدمی کے لئے پڑھا جائے اس کی بھی مغفرت کردی جاتی ہے چناچہ میں اس کلمہ کو روایت کردہ عدد کے مطابق خاص طور سے کسی کے لئے نیت کئے بغیر پڑھا کرتا تھا اتفاق سے ایک دن میں ایک جگہ دعوت میں گیا وہاں میرے چند رفیق بھی تھے اس میں سے ایک آدمی جوان تھا جو کشف کے سلسلے میں بہت مشہور تھا کھانے کے دوران اچانک وہ رونے لگا میں نے حیرت زدہ ہو کر اس سے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ میں (کشف کے ذریعہ) دیکھ رہا ہوں کہ میری ماں عذاب میں مبتلا ہے یہ سنتے ہی میں نے کلمہ مذکورہ کا ثواب دل ہی دل میں اس کی ماں کے لئے بخش دیا اب وہ ہنسنے لگا اور اس نے کہا کہ اب میں اپنی ماں کو جنت میں دیکھ رہا ہوں۔ اس واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد آدمی محی الدین ابن عربی نے فرمایا کہ اس آدمی کے کشف کے صحیح ہونے سے میں نے اس حدیث کو صحیح جانا اور اس حدیث کے صحیح ہونے سے اس آدمی کے کشف کو صحیح مانا۔
Top