مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1084
امامت کا بیان
شریعت میں نماز کی امامت کا بڑا اہم اور عظیم الشان کام ہے تمام مقتدیوں کی نمازوں کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے امام مقرر کرنے کے سلسلے میں شریعت نے کچھ شرائط مقرر کی ہیں اور یہ بتایا ہے کہ اس اہم اور عظیم الشان منصب کا حامل کون آدمی ہوسکتا ہے، اس باب کے تحت اس قسم کی احادیث نقل کی جائیں گی جن سے معلوم ہوگا کہ امام مقرر کرنے کے وقت کن باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور یہ کہ امامت کا استحقاق کن لوگوں کو حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ مقتدیوں کو چاہیے کہ حاضر نمازیوں میں جس آدمی میں امامت کے لائق زیادہ اوصاف ہوں اس کو امام بنائیں اگر کئی آدمی ایسے ہوں جن میں امامت کی لیاقت ہو تو کثرت رائے پر عمل کیا جائے یعنی جس آدمی کی طرف زیادہ لوگوں کی رائے ہوں اسی کو امام بنایا جائے اگر کسی ایسے آدمی کی موجودگی میں جو امامت کا مستحق اور لائق ہو کسی غیر مستحق اور نالائق آدمی کو امام بنا لیا جائے گا تو سب نمازی ترک سنت کے فتنے میں مبتلا ہوں گے۔ (١) امامت کا سب سے زیادہ استحقاق اس آدمی کو ہے جو نماز کے مسائل خوب جانتا ہو بشر طی کہ ظاہری طور پر اس میں کوئی فسق وغیرہ نہ ہو اور کم سے کم بقدر قرأت مسنون اسے قرآن یاد ہو۔ (٢) پھر وہ آدمی جو قرآن مجید اچھا یعنی عمدہ آواز سے قرأت کے قاعدے کے موافق پڑھتا ہو۔ (٣) پھر وہ آدمی جو سب سے زیادہ خوبصورت ہو (٤) پھر وہ آدمی جو سب سے عمر زیادہ رکھتا ہوں۔ (٥) پھر وہ آدمی جو سب سے زیادہ خلیق ہو (٦) پھر وہ آدمی جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو (٧) پھر وہ آدمی جو سب سے عمدہ لباس پہنے ہو (٨) پھر وہ آدمی جس کا سر سب سے زیادہ بڑا ہو (٩) پھر وہ آدمی جو مقیم ہو بہ نسبت مسافروں کے (١٠) پھر وہ آدمی جو اصلی آزاد ہو (١١) پھر وہ آدمی جس نے حدث اصغر سے تییم کیا ہو بنسبت اس آدمی کے جس نے حدث اکبر سے تییم کیا ہو۔ جس آدمی میں دو وصف پائے جائیں وہ امامت کا زیادہ مستحق ہے بہ نسبت اس آدمی کے جس میں ایک ہی وصف پایا جاتا ہے۔ مثلاً وہ آدمی جو نماز کے مسائل بھی جانتا ہو اور قرآن مجید بھی اچھی طرح پڑھتا ہو امامت کا زیادہ مستحق اور اہل ہے بہ نسبت اس آدمی کے جو صرف نماز کے مسائل جانتا ہو قرآن مجید اچھی طرح نہ پڑھتا ہو۔
Top