مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1073
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍص قَالَ بِتُّ فِیْ بَےْتِ خَالَتِیْ مَےْمُوْنَۃَرضی اللہ عنہا فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُصَلِّیْ فَقُمْتُ عَنْ ےَّسَارِہٖ فَاَخَذَ بِےَدِیْ مِنْ وَّرَآءِ ظَھْرِہٖ فَعَدَلَنِیْ کَذَالِکَ مِنْ وَّرَآءِ ظَہْرِہٖ اِلَی الشِّقِّ الْاَےْمَنِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
امام اور مقتدی کے کھڑنے ہونے کی جگہ کا بیان
حضرت عبدا اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں نے اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ ؓ کے ہاں رات گزرای چناچہ ( جب رسول اللہ ﷺ (تہجد) نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو میں آپ ﷺ کے بائیں طرف جا کر کھڑے ہوگیا رسول اللہ ﷺ نے اپنے پیچھے سے میرا ہاتھ پکڑ کر اس طرح پھیرا (کہ) مجھے اپنے پیچھے کی جانب سے لا کر دائیں طرف کھڑا کرلیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے کئی مسائل کا استنباط ہوتا ہے۔ (١) نفل نماز جماعت سے پڑھنا جائز ہے۔ (٢) اگر جماعت صرف دو آدمیوں کی ہو یعنی ایک امام اور ایک مقتدی۔ تو مقتدی کو امام کی دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔ (٣) نماز میں تھوڑا سا عمل جائز ہے۔ (٤) مقتدی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ امام سے آگے ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کو آگے کی جانب سے پھیرنے کی بجائے اپنے پیچھے سے پھیر کر دائیں طرف لا کھڑا کیا۔ (٥) ایسے آدمی کے پیچھے اقتداء جائز ہے جس نے شروع سے امام کی نیت نہ کر رکھی ہو۔ ہدایہ میں لکھا ہے کہ صورت مذکورہ میں اگر تنہا مقتدی امام کے پیچھے یا بائیں طرف نماز پڑھے تو جائز ہے لیکن مناسب نہیں ہے۔
Top