مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1033
وَعَنْ اَبِی الدَّرْدَآءِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَامِنْ ثَلَاثَۃٍ فِی قَرْیَۃٍ وَلَا بَدْوٍ لَا تُقَامُ فِیْھِمُ الصَّلَاۃُ اِلَّا قَدِاسْتَحْوَذَ عَلَیْھِمُ الشَّیْطَانُ فَعَلَیْکَ بِالْجَمَاعَۃِ فَاِنَّمَا یَا کُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِیَۃَ۔ (رواہ احمد بن حنبل وابوداؤد، النسائی )
جماعت سے نماز پڑھنے والوں پر شیطان غالب نہیں ہوتا
اور حضرت ابودرداء ؓ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جس بستی اور جنگل میں تین آدمی ہوں اور جماعت سے نماز نہ پڑھتے ہوں تو ان پر شیطان غالب رہتا ہے لہٰذا تم جماعت کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ اس بکری کو بھیڑیا کھا جاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو (کر تنہا رہ) جاتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، سنن نسائی)

تشریح
اجتماعیت میں فلاح و کامیابی ہے اور انفرادیت میں خسران و ناکامی، چناچہ اسلام اپنے متبعین کو اجتماعیت کی تعلیم بڑی اہمیت کے ساتھ دیتا ہے اور اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ اگر اپنی قوم وملی شان و شوکت کو برقرار رکھنا ہے اور اپنی امتیازی حیثیت کو پوری طاقت کے ساتھ دنیا سے منوانا ہے تو پھر اجتماعیت کے راستہ سے کبھی انحراف نہ کرنا، یہی وجہ ہے کہ اسلام کی اکثر و بیشتر عبادات شان اجتماعیت کی حامل ہیں۔ یہ تو دنیا کی دیکھی بات ہے کہ جو آدمی تن تنہا رہتا ہے نہ تو اس کی کوئی حیثیت و وقعت ہوتی ہے اور نہ اس کی کسی بات میں کوئی طاقت ہوتی ہے جب کوئی چاہتا ہے بڑی آسانی کے ساتھ اس پر قابو پا لیتا ہے لیکن جو افراد اجتماعیت کے ساتھ رہتے ہیں نہ صرف یہ کہ ان کی ہر بات میں ایک وزن ہوتا ہے بلکہ ان کی قوت و طاقت سے سب ہی لوگ مرعوب رہتے ہیں۔ یہی حالت شیطان کا ہے کہ کسی تنہا مسلمان پر اس کا اثر بہت جلدی ہوتا ہے مگر اس کے برخلاف مسلمانوں کی کسی جماعت پر اس کے مکر و فریب کا جادو نہیں چلتا۔ چنانچہ اس حدیث میں یہی بتایا جا رہا ہے کہ اگر کسی بستی یا کسی جنگل میں تین افراد رہتے ہوں اور اس کی مثال یہ دی گئی ہے کہ جس طرح ایک بھیڑیا بکریوں کے کسی ریوڑ پر حملہ کرنے کی جرات نہیں کرتا مگر جب کوئی بکری ریوڑ سے الگ ہو کر بالکل تنہا رہ جاتی ہے تو بھیڑیا اسے آن واحد میں اپنی غذا بنا لیتا ہے۔
Top