مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1017
جماعت اور اس کی فضیلت کا بیان
جماعت کی فضیلت اور تاکید میں صحیح احادیث اس کثرت سے وارد ہیں کہ اگر سب کو یکجا کیا جائے تو ایک دفتر تیار ہوسکتا ہے اس باب کے تحت اسی قسم کی احادیث نقل کی جائیں گی جن سے جماعت کی فضیلت و تاکید اور اس کے احکام و مسائل کا علم حاصل ہوگا۔ ان احادیث کو دیکھنے کے بعد یقینی طور پر آپ یہی نتیجہ اخذ کریں گے کہ جماعت نماز کی تکمیل میں ایک اعلیٰ درجے کی شرط ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے کبھی جماعت کو ترک نہیں فرمایا حتی کہ حالت مرض میں جبکہ آپ ﷺ کے لئے خود چل کر مسجد میں پہنچنا ممکن نہ تھا دو آدمیوں کے سہارے سے مسجد میں تشریف لے گئے اور جماعت سے نماز پڑھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت محمد یہ میں جماعت کا بڑا اہتمام کیا گیا ہے اور ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ نماز جیسی عظیم عبادت کی شان اسی کی متقاضی تھی کہ جس چیز سے اس کی تکمیل ہو اسے اعلیٰ درجے پر پہنچایا جائے۔ جماعت فرض و واجب ہے یا نہیں؟ اس بارے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ آیا جماعت سنت ہے یا واجب اور یا فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟ چناچہ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جماعت فرض عین ہے الا کسی عذر کی وجہ سے، یہ قول امام احمد بن حنبل، داؤد، عطاء اور ابوثورِ رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا ہے بعض علماء کا قول یہ ہے کہ جو کوئی نماز کے لئے اذان سنے اور مسجد میں حاضر نہ ہو تو اس کی نماز درست نہیں، حضرت امام شافعی کے (رح) کے نزدیک جماعت فرض کفایہ ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے متبعین رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہ ہے کہ جماعت سنت موکدہ واجب کے قریب ہے لیکن فقہ کی کتابوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ جماعت کے بارے میں حنفی فقہاء کے دو قول ہیں بعض کتابوں میں جماعت کو واجب لکھا گیا ہے اور بعض میں سنت موکدہ اور وجوب ہی کا قول راجح اور اکثر محققین حنفیہ کا مسلک بیان کیا گیا ہے چناچہ مشہور محقق حضرت ابن ہمام لکھتے ہیں کہ ہمارے اکثر مشائخ کا مسلک یہی ہے کہ جماعت واجب ہے لیکن اس کو سنت اس لئے کہا جاتا ہے کہ جماعت کا ثبوت سنت یعنی حدیث سے ہے نہ یہ کہ خود جماعت سنت ہے جیسا کہ نماز عیدین، وہ واجب ہے مگر اسے سنت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کا ثبوت حدیث سے ہے۔ جماعت کے احکام و مسائل کتاب بدائع میں لکھا ہے کہ جماعت کے لئے مسجد میں حاضر ہونا ہر عقال بالغ غیر معذور پر واجب اور اگر ایک مسجد میں جماعت نہ ملے تو دوسری مسجدوں میں پھرنا واجب نہیں ہے البتہ جماعت کی سعادت حاصل کرنے کی خاطر اگر دوسری مسجدوں میں جائے تو یہ اچھی ہی بات ہوگی، قدوری نے لکھا ہے کہ اس صورت میں کہ اگر مسجد میں جماعت نہ ملے، تو چاہیے کہ اہل و عیال کو جمع کر کے گھر ہی میں جماعت سے نماز پڑھ لی جائے۔ اس مسئلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ محلے کی مسجد میں جماعت افضل ہے یا جامع مسجد میں، اگر ایک محلے میں دو مسجدیں ہوں تو ان میں سے قدیم مسجد کو اختیار کرنا چاہیے اور اگر دونوں برابر ہوں تو پھر جو مسجد قریب ہو اسے اختیار کیا جائے، جماعت نماز تراویح میں اگرچہ ایک قرآن مجید جماعت کے ساتھ ہوچکا ہو اور نماز کسوف کے لئے سنت موکدہ ہے، رمضان کے وتر میں جماعت مستحب ہے رمضان کے علاوہ اور کسی زمانہ کے وتر میں جماعت مکروہ تنزیہی ہے مگر اس کے مکروہ ہونے میں یہ شرط ہے کہ مواظبت کی جائے اگر مواظبت نہ کی جائے بلکہ کبھی کبھی دو تین آدمی جماعت سے پڑھ لیں تو مکروہ نہیں۔ نماز خسوف میں اور تمام نوافل میں جماعت مکروہ تحریمی ہے بشرطیکہ نوافل اس اہتمام سے ادا کئے جائیں جس اہتمام سے فرائض کی جماعت ہوتی ہے یعنی اذان و اقامت کے ساتھ یا کسی اور طریقے سے لوگوں کو جمع کر کے ہاں اگر بغیر اذان و اقامت کے اور بغیر بلائے ہوئے دو تین آدمی جمع ہو کر کسی نفل کو جماعت سے پڑھ لیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ جماعت کی حکمتیں اور فائدے جماعت کی حکمتیں کیا ہیں؟ اور اس کے کیا فائدے مرتب ہوتے ہیں، اس موضوع پر علماء نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن اس سلسلے میں امام الکبیر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے جو لطیف و جامع بات کہی ہے وہ کہیں نظر نہیں آتی چناچہ اس موقع پر انہیں کی تقریر نقل کی جاتی ہے وہ فرماتے ہیں کہ (١) کوئی چیز اس سے زیادہ سود مند نہیں کہ کوئی عبادت اس طرح رسم عام کردی جائے کہ وہ عبادت ایک ضروری عادت ہوجائے کہ اس کو چھوڑنا کسی عادت کو ترک کرنے کی طرح ناممکن ہوجائے اور تمام عبادتوں میں نماز سے زیادہ عظیم و شاندار کوئی عبادت نہیں کہ اس کے ساتھ یہ خاص اہتمام کیا جائے (٢) مذہب میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں جاہل بھی عالم بھی، لہٰذا یہ بڑی مصلحت کی بات ہے کہ سب لوگ جمع ہو کر ایک دوسرے کے سامنے اس عبادت کو ادا کریں تاکہ کہ اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو دوسرا اسے بتادے گویا اللہ کی عبادت ایک زیور ہوئی کہ تمام پرکھنے والے اسے دیکھتے ہیں جو خرابی اس میں ہوتی ہے بتلاد یتے ہیں اور جو عمدگی ہوتی ہے اسے پسند کرتے ہیں پس نماز کی تکمیل کا یہ ایک ذریعہ ہوگا۔ (٣) جو لوگ بےنمازی ہوں گے ان کا بھی اس سے حال کھل جائے گا اور ان کے لئے وعظ و نصیحت کا موقع ملے گا۔ (٤) چند مسلمانوں کا مل کر اللہ کی عبادت کرنا اور اس سے دعا مانگنا حق تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور قبولیت کے لئے ایک عجیب خاصیت رکھتا ہے۔ (٥) اس امت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا یہ مقصود ہے کہ اس کے نام کا کلمہ بلند ہو اور کلمہ کفر پست ہو اور روئے زمین پر کوئی اسلام سے غالب نہ رہے اور یہ بات جب ہی ہوسکتی ہے کہ یہ طریقہ مقرر کیا جائے کہ تمام مسلمان خواہ وہ کسی درجے اور کسی طبقے کے ہوں، عام و خاص مسافر اور مقیم، چھوٹے اور بڑے سب ہی اپنی کسی بڑی اور مشہور عبادت کے لئے جمع ہوں اور اسلام کی شان و شوکت اور اس کی ترغیب دی گئی اور اس کے چھوڑنے کی ممانعت کی گئی۔ (حجۃ اللہ البالغہ) (٦) جماعت میں یہ فائدہ بھی ہے کہ تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے حال پر اطلاع ہوتی رہے گی اور وہ ہر ایک کے درد و مصیبت میں شریک ہو سکیں گے جس سے دینی اخوت اور ایمانی محبت کا پورا اظہار و استحکام ہوگا جو اس شریعت کا ایک بڑا مقصود ہے اور جس کی تاکید و فضیلت جا بجا قرآن عظیم اور احادیث رسول اللہ ﷺ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ (علم الفقہ) موجودہ زمانے کی نظریاتی دوڑ کے مطابق دیکھا جائے تو جماعت اسلام کے نظریہ مساوات کا سب سے اعلیٰ مظہر ہے دن میں پانچ مرتبہ اللہ کے تمام بندے جو دنیاوی اعتبار سے کسی بھی منصب و مرتبے کے ہوتے ہیں اپنی تمام برتری و فوقیت اور اپنے دنیاوی جاہ و جلال کو بالائے طاق رکھ کر اللہ کے حضور میں تمام عام مسلمانوں کے ساتھ مل کر سر بسجود ہوجاتے ہیں اور زبان حال سے اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز ترک جماعت کے عذر جیسا کہ بتایا جا چکا ہے ہر عاقل بالغ غیر معذور پر جماعت واجب ہے لیکن اگر ایسا کوئی آدمی ہو یعنی اسے ایسا عذر لاحق ہو جس کی وجہ سے وہ مسجد میں جا کر جماعت میں شریک نہیں ہوسکتا ہو تو اس کے لئے جماعت واجب نہیں رہتی، چناچہ فقہاء نے ترک جماعت کے پندرہ عذر (ماخوذاز علم الفقہ) بیان کئے ہیں۔ (١) نماز کے صحیح ہونے کی شرط مثلاطہارت یا ستر عورت وغیرہ کا نہ پایا جانا۔ (٢) پانی کا بہت زوروں کے ساتھ برسنا، اس سلسلے میں حضرت امام محمد نے اپنی کتاب موطا میں لکھا ہے کہ اگرچہ شدید بارش کی صورت میں جماعت کے لئے نہ جانا جائز ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ جا کر جماعت سے نماز پڑھی جائے۔ (٣) مسجد کے راستے میں سخت کیچڑ کا ہونا۔ (٤) سردی اتنی سخت ہو کہ باہر نکلنے میں یا مسجد تک جانے میں کسی بیماری کے پیدا ہوجانے یا بڑھ جانے کا خوف ہو۔ (٥) مسجد تک جانے میں مال و اسباب کے چوری ہوجانے کا خوف ہو۔ (٦) مسجد جانے میں کسی دشمن کے مل جانے کا خوف ہو۔ (٧) مسجد جانے میں کسی قرض خواہ کے ملنے اور اس سے تکلیف پہنچنے کا خوف ہو بشرطیکہ اس کے قرضے کے ادا کرنے پر قادر نہ ہو اگر قادر ہو تو وہ ظالم سمجھا جائے گا اور اس کو ترک جماعت کی اجازت نہ ہوگی۔ (٨) رات اس قدر اندھیری ہو کہ راستہ نہ دکھائی دیتا ہو ایسی حالت میں یہ ضروری نہیں کہ لالٹین وغیرہ ساتھ لے کر جائے۔ (٩) رات کا وقت ہو اور آندھی بہت سخت چلتی ہو۔ (١٠) کسی مریض کی تیمارداری کرنا ہو کہ اس کے جماعت میں چلے جانے سے اس مریض کی تکلیف یا وحشت کا خوف ہو۔ (١١) پیشاب یا پاخانہ معلوم ہوتا ہو۔ (١٢) سفر کا ارادہ رکھتا ہو اور خوف ہو کہ جماعت سے نماز پڑھنے میں دیر ہوجائے گی اور قافلہ نکل جائے گا، ریل کا مسئلہ بھی اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے مگر فرق اس قدر کہ وہاں ایک قافلے کے بعد دوسرا قافلہ بہت دنوں کے بعد ملتا ہے اور یہاں ریل ایک دن کئی بار جاتی ہے اگر ایک وقت کی ریل نہ ملی تو دوسرے وقت جاسکتا ہے ہاں اگر ایسا ہی سخت حرج ہوا ہو تو جماعت چھوڈ دینے میں مضائقہ نہیں۔ (١٣) فقہ وغیرہ پڑھنے یا پڑھانے میں ایسا مشغول رہتا ہو کہ بالکل فرصت نہ ملتی ہو۔ (١٤) کوئی ایسی بیماری مثلاً فالج وغیرہ ہو یا اتنا ضعیف ہو کہ چلنے پر قادر نہ ہو یا نا بینا ہوا گرچہ اس کو مسجد تک پہنچا دینے والا کوئی مل سکے یا لنگڑا ہو یا دونوں طرف سے ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے ہوں۔ (١٥) کھانا تیار یا تیاری کے قریب ہو اور ایسی بھوک لگی ہو کہ نماز میں جی نہ لگنے کا خوف ہو۔
Top