مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1016
وَعَنْ اَبِی ذَرٍّ قَالَ وَقَدْ صَعِدَ عَلٰی دَرَجَۃِ الْکَعْبَۃِ مَنْ عَرَفَنِی فَقَدْ عَرَفَنِی وَمَنْ لَمْ یَعْرِفُنِیْ فَاَنَا جُنْدُبٌ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ لَا صَلٰوۃَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَلَا بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ اِلَّا بِمَکَّۃَ اِلَّا بِمَکَّۃَاِلَّابِمَکَّۃَ۔ (رواہ احمد بن حنبل ورزین)
عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کی ممانعت
اور حضرت ابوذر ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے کعبہ کے زینے پر چڑھ کر فرمایا کہ جس آدمی نے مجھے پہچانا (یعنی میرا نام جان لیا) اس نے مجھے (یعنی میری سچائی کو) پہچان لیا اور جس نے مجھ کو نہیں پہچانا تو (میں اس کو بتادینا چاہتا ہوں کہ میں جندب ہوں میں نے سرور کونین ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ صبح کی نماز کے بعد جب تک آفتاب طلوع نہ ہوجائے کوئی نماز نہیں ہے اور نہ عصر کی نماز کے بعد کوئی نماز ہے جب تک آفتاب غروب نہ ہوجائے مگر مکہ میں مگر مکہ میں مگر مکہ میں (مسند احمد بن حنبل، رزین)

تشریح
خانہ کعبہ کا دوازہ چونکہ بلند ہے اس لئے اس پر چڑھنے کے لئے زینہ تھا چناچہ اب بھی ایک چوبی زینے منبر کی شکل میں ہے جو خانہ کعبہ کے سامنے چاہ زمزم کے پاس رکھا رہتا ہے جب خانہ کعبہ کے اندر داخلہ ہوتا ہے تو اس کو دروازے کے سامنے لگا دیتے ہیں اور پھر اس کے بعد اس زینے کو وہاں سے ہٹا کر اپنی جگہ رکھ دیتے ہیں لہٰذا احتمال ہے کہ اس وقت بھی اس قسم کا یا کسی دوسری طرح کا زینے ہوگا جس کے ذریعے خانہ کعبہ کے اندر داخل ہوتے ہوں گے۔ بہر حال حضرت ابوذر ؓ نے کہ جن کا نام جندب تھا۔ خانہ کعبہ کے زینے پر چڑھ کر یہ بات کہی تاکہ لوگ ان کی صداقت شعاری اور سچائی کی بناء پر حدیث کو صحیح جانیں۔ اس طرح حضرت ابوذر ؓ نے گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ ابوذر ؓ زیادہ کسی راست گو اور سچے انسان پر نہ تو آسمان نے سایہ کیا اور نہ زمین نے اپنے اوپر اٹھایا۔ مکہ مکرمہ میں اوقات مکروہہ میں نماز کے جائز ہونے کے مسئلے کو اس سے پہلے حدیث نمبر سات میں بتایا جا چکا ہے اس موقعہ پر تو صرف اتنی بات جان لیجئے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
Top