مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1009
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِبْرَاھِیْمَ وَعَنْ قَیْسِ بْنِ عَمْرٍ وَقَالَ رَآی النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم رَجُلًا یُصَلِّی بَعْدَ صَلاۃِ الصُّبْحِ رَکْعَتَیْنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَاۃَ الصُّبْحِ رَکْعَتَیْںِ رَکْعَتَیْنِ فَقَالَ الرَّجُلُ اِنِّی لَمْ اَکُنْ صَلَّیْتُ الرَّکْعَتَیْنِ اللَّتَیْنِ قَبْلَھُمَا فَصَلَّیْتُھُمَا الْاٰنَ فَسَکَتَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَرَوَی التِّرمِذِیُّ نَحْوَہُ وَقَالَ اِسْنَادُ ھٰذَا الْحَدِیْثِ لَیْسَ بِمُتَّصِلٍ لِاَنَّ مُحَمَّدَ ابْنَ اِبْرَاھِیْمَ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ قَیْسِ بْنِ عَمْرٍو وَفِیْ شَرْح السُّنَّۃِ وَنُسَخ الْمَصَابِیْحِ عَنْ قَیْسِ بْنِ قَھْدٍ نَحْوَہُ۔
فجر کی سنتوں کی قضا کا مسئلہ
حضرت محمد ابن ابراہیم، قیس ابن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ( ایک دن) سرور کونین ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر کی فرض نماز کے بعد دو رکعت نماز پڑھا رہا ہے، آپ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ صبح کی نماز دو کعت ہے (پھر فرمایا کہ) دو رکعت ہی پڑھو! اس آدمی نے عرض کیا کہ فجر کی فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں (سنت) میں نے نہیں پڑھی تھیں انہیں کو میں نے اس وقت پڑھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ ( یہ سن کر) خاموش ہوگئے۔ (سنن ابوداؤد) امام ترمذی نے بھی اس طرح نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کی اسناد متصل نہیں ہے کیونکہ محمد بن ابراہیم کا قیس ابن عمرو سے سننا ثابت نہیں ہے، نیز شرح السنہ اور مصابیح کے بعض نسخوں میں قیس ابن فہد سے اسی طرح منقول ہے۔

تشریح
حدیث کے جملہ صَلٰوۃُ الصُّبْحِ رکعتین سے پہلے ایک لفظ مقدر ہے یعنی یہ عبارت پوری طرح یوں ہے اِجْعَلُوا صَلٰوۃُ الصُّبْحِ رَکْعَتَیْںِ۔ لفظ رکعتین نفی زیادیت کی تاکید کے لئے مکرر فرمایا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فجر کی فرض دو ہی رکعتیں پڑھو اس کے بعد اور کوئی نماز نہ پڑھو۔ رسول اللہ ﷺ نمازی کا جواب سن کر خاموش رہے۔ محدیثن کی اصطلاح میں اس خاموشی کو تقریر کہا جاتا ہے رسول اللہ کے سامنے کوئی عمل کیا گیا اور آپ ﷺ نے اس پر سکوت فرمایا گویا آپ ﷺ اس عمل سے راضی ہوئے، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر فجر کی فرض نماز سے پہلے کی دو سنتیں نہ پڑھی جاسکیں تو فرض پڑھنے کے بعد ان کی قضا پڑھنی چاہیے، چناچہ حضرت امام شافعی (رح) کا یہی مسلک ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام ابویوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک اس سلسلے میں یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کی قضا نہ تو طلوع آفتاب سے پہلے ہے اور نہ طلوع کے بعد ہے لیکن سنتیں اگر فرض کے ساتھ فوت ہوں گی تو وہ بھی فرض کے ساتھ زوال آفتاب سے پہلے پہلے قضا پڑھی جائیں گی۔ حضرت امام محمد (رح) فرماتے ہیں کہ محض سنتوں کی بھی قضا پڑھی جاسکتی ہے مگر طلوع آفتاب کے بعد سے زوال آفتاب تک۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت ابویوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کی دلیل یہ ہے کہ سنتوں میں اصل عدم قضا ہے اور قضا واجب کے ساتھ مخصوص ہے اور حدیث جو سنتوں کے قضا کے اثبات میں وارد ہے وہ ان سنتوں کے بارے میں ہے جو فرض کے ساتھ فوت ہوگئی ہوں بقیہ سنتیں اپنی اصل ( عدم قضا پر رہیں گی یعنی ان کی قضا نہیں کی جائے گی جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے تو محمد ابن ابراہیم کی یہ حدیث چونکہ ضیعف ہے اس لئے اسے کسی مسلک کی بنیاد اور دلیل بنانا ٹھیک نہیں ہے۔ اسی طرح دوسرے اوقات کی سنتوں کا مسئلہ بھی یہی ہے کہ وقت کے بعد تنہا ان کی قضا نہ کی جائے البتہ وہ سنتیں جو فرض کے ساتھ فوت ہوگئی ہوں فرض کے ساتھ ان کی قضا کے بارے میں اختلاف ہے۔
Top