مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 1004
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا ےَتَحَرّٰی اَحَدُکُمْ فَےُصَلِّیْ عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَلَا عِنْدَ غُرُوْبِھَا وَفِیْ رِوَاےَۃٍ قَالَ اِذَا طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَدَعُوا الصَّلٰوۃَ حَتّٰی تَبْرُزَ وَاِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَدَعُوا الصَّلٰوۃَ حَتّٰی تَغِےْبَ وَلَا تَحَےَّنُوْا بِصَلٰوتِکُمْ طُلُوْعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوْبَھَا فَاِنَّھَا تَطْلُعُ بَےْنَ قَرْنِیَ الشَّےْطَانِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
طلوع وغروب آفتاب کے وقت نماز نہیں پڑھنی چاہیے
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی آفتاب کے نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نماز پڑھنے کا قصد نہ کرے۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز چھوڑ دو یہاں تک کہ سورج خوب ظاہر ہوجائے یعنی (ایک نیزے کے بقدر بلند ہوجائے) نیز جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو مطلقاً کوئی بھی نماز خواہ فرض ہو یا نفل چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ بالکل غروب ہوجائے اور آفتاب کے طلوع و غروب ہونے کے وقت نماز پڑھنے کا ارادہ نہ کرو اس لئے کہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حدیث کے الفاظ قصد نہ کرے سے حضرت امام شافعی (رح) نے یہ نیتجہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی ان اوقات میں قصدا تحیۃ المسجد اور قضا کی نماز پڑھے گا تو اس حدیث کی رو سے خلاف کرے گا ہاں اگر کوئی آدمی اتفاقا پڑھ لے تو جائز ہوگا لیکن حنفیہ فرماتے ہیں کہ حدیث کا مقصد مطلق طور پر ان اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کرنا ہے اس میں قصدًا یا اتفاقًا کی قید لگانا حدیث کی منشاء کے خلاف ہے۔ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان آفتاب نکلنے کا مطلب شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان آفتاب نکلنے کا مطلب اس کے سر کے دونوں جانبوں کے درمیان آفتاب نکلنا ہے یعنی شیطان طلوع آفتاب کے وقت آفتاب کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے تاکہ آفتاب اس کے سر کے دونوں جانبوں کے درمیان نکلے اور اس حرکت سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ آفتاب کو پوجتے ہیں شیطان ان کا قبلہ بن جائے چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اس وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے تاکہ اللہ کے ان باغیوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔
Top