سفر میں نماز پڑھنے کا بیان
اور حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ اپنے صاحبزادے حضرت عبیداللہ کو سفر کی حالت میں نفل پڑھتے ہوئے دیکھتے تھے اور منع نہیں کرتے تھے۔ (مالک) فائدہ ہو سکتا ہے کہ حضرت عبیداللہ سنت مؤ کدہ پڑھتے ہوں گے۔ یا یہ کہ وہ اس اعتقاد کے باوجود کہ سفر کی حالت میں نفل نماز کو چھوڑ دینا جائز ہے۔ اگر وقت میں وسعت دیکھتے ہوں گے، تو دوسرے نوافل پڑھنے لگتے ہوں گے۔ لہٰذا اس مفہوم کی صورت میں حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کے بارے میں اس روایت کو جس میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنے قافلے کے لوگوں کو سفر میں نفل نماز پڑھنے سے منع کردیا تھا۔ (دیکھئے حدیث نمبر ٦٠) اس بات پر محمول کیا جائے کہ انہوں نے یہ گمان کیا ہوگا، کہ وظائف مثلاً نوافل وغیرہ اس قدر لازم ہیں کہ انہیں سفر کی حالت میں بھی نہ چھوڑنا چاہیے۔ حالانکہ ایسا کوئی حکم نہیں ہے۔ اس لئے حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ نے ان کو نوافل پڑھنے سے روک کر ان کے اس گمان و خیال کی تردید فرمائی۔ کیونکہ اللہ جل شانہ تو اپنے فضل و کرم سے مسافر بندہ کے نامہ اعمال میں اس عمل کا ثواب بھی لکھتا ہے جو وہ از قسم عبادت حضر ہو یعنی اپنے گھر میں کرتا تھا۔ ورنہ تو جہاں تک نفس نماز کا تعلق ہے اس سے بہتر کون سی مشغولیت ہوسکتی ہے اور بغیر کسی وجہ کے اس کے پڑھنے سے کون روک سکتا ہے۔ جب کہ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ خود جانتے تھے کہ نماز سے روکنا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ ارشاد ربانی ہے آیت (اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰى۔ عَبْدًا اِذَا صَلّٰى 10) 96۔ العلق 9) بھلا تم نے اس آدمی کو دیکھا جو منع کرتا ہے (یعنی) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے؟