مشکوٰۃ المصابیح - نماز خوف کا بیان - حدیث نمبر 1396
وَعَنْ جَابِرٍ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یُصَلِّی بِالنَّاسِ صَلَاۃَ الظُّھْرِ فِی الْخَوْفِ بِبَطْنِ نَخْلٍ فَصَلّٰی بِطَائِفَۃٍ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ ثُمَّ جَآءَ طَائِفَۃُ اُخْرٰی فَصَلَّی بِھِمْ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ سَلَّمَ۔ (رواہ فی شرح السنۃ)
نماز خوف کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مختص ایک ہی طریقہ
حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مقام بطن نخل میں خوف کے وقت ظہر کی نماز پڑھی چناچہ آپ ﷺ نے لوگوں کو اس طرح) نماز پڑھائی کہ ایک جماعت کو دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ پھر جب دوسری جماعت آئی تو اسے بھی دو رکعتیں نماز پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ (شرح السنۃ)

تشریح
بطن نخل مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے حضرت امام شافعی (رح) کے مسلک کے مطابق یہ حدیث اس پر محمول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قصر کی نماز پڑھی۔ یعنی آپ ﷺ نے چار رکعتوں کے بجائے دو رکعت نماز ادا فرمائی اس کے بعد دو رکعت نماز نفل پڑھی۔ حضرت امام شافعی (رح) کے ہاں نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنے والا اقتدا کرسکتا ہے۔ حنفی مسلک کے مطابق اس حدیث کی تشریح بظاہر ایک سخت مسئلہ ہے کیونکہ اگر اسے سفر پر محمول کیا جائے تو نفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے فرض نماز پڑھنے والے کی اقتدا لازم آتی ہے اور حنفیہ کے ہاں یہ درست نہیں ہے لہٰذا یہ سفر کی نماز تو قرار نہیں دی جاسکتی۔ اب اگر اس حدیث کا محمول حضر کی نماز قرار دی جائے تو پھر ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا لازم آتا ہے جو نماز کے منافی ہے لہٰذا اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ یہ کہا جائے کہ نماز تو حالت حضر ہی میں پڑھی گئی تھی البتہ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرنا یہ صرف آپ ﷺ کی خصوصیات میں سے تھا جو دوسروں کے لئے جائز نہیں ہے چناچہ لوگوں نے اپنی بقیہ دو دو رکعتیں آپ کے سلام پھیرنے کے بعد بطور خود پوری کیں اس طرح ان کی بھی چار رکعتیں ہوگئیں۔ اس سلسلے میں حضرت امام طحاوی (رح) نے جو تحقیق پیش کی ہے وہ بہت مناسب معلوم ہوتی ہے انہوں نے فرمایا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ ایک فرض نماز دو مرتبہ پڑھی جاسکتی تھی۔
Top