مشکوٰۃ المصابیح - نماز خوف کا بیان - حدیث نمبر 1394
وَعَنْ جَابِرٍصقَالَ اَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم حَتّٰی اِذَا کُنَّا بِذَاتِ الرِّقَاعِ قَالَ کُنَّا اِذَا اَتَےْنَا عَلٰی شَجَرَۃٍ ظَلِےْلَۃٍ تَرَکْنٰھَا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِّنَ الْمُشْرِکِےْنَ وَسَےْفُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مُعَلَّقٌ بِشَجَرَۃٍ فَاَخَذَ سَےْفَ نَبِیِّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاخْتَرَطَہُ فَقَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ اَتَخَافُنِیْ قَالَ لَا قَالَ فَمَنْ ےَمْنَعُکَ مِنِّیْ قَالَ اَللّٰہُ ےَمْنَعُنِیْ مِنْکَ قَالَ فَتَھَدَّدَہُ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَغَمَّدَ السَّےْفَ وَعَلَّقَہُ قَالَ فَنُوْدِیَ بِالصَّلٰوۃِ فَصَلّٰی بِطَآئِفَۃٍ رَّکْعَتَےْنِ ثُمَّ تَاَخَّرُوْا وَصَلّٰی بِالطَّآئِفَۃِ الْاُخْرٰی رَکْعَتَےْنِ قَالَ فَکَانَتْ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَرْبَعُ رَکَعَاتٍ وَّلِلْقَوْمِ رَکْعَتَانِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
رسول اللہ ﷺ کا حلم
اور حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ ہم سر تاج دو عالم ﷺ کے ہمراہ ( جہاد کے لئے روانہ ہوئے یہاں تکہ ہم ذات الرقاع پہنچے۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ (ہمارا قاعدہ یہ تھا کہ) جب ہمیں کوئی سایہ دار درخت ملتا تو ہم اسے رسول اللہ ﷺ کے واسطے چھوڑ دیتے تھے۔ (تاکہ آپ ﷺ اس سائے میں استراحت فرمائیں چناچہ ذات الرقاع میں ایسا ہی ہوا کہ رسول اللہ ﷺ ایک سایہ دار درخت کے نیچے آرام فرما رہے تھے کہ) ایک مشرک آیا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کی تلوار جو درخت سے لٹکی ہوئی تھی اتار کر نیام سے کھینچ لی (رسول اللہ ﷺ کو اس کی خبر نہیں ہوئی کیونکہ یا تو آپ سو رہے تھے یا اس کی طرف سے غافل تھے) اس نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ کیا تم مجھ سے ڈرتے ہو؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں (میں تجھ سے کیوں ڈرنے لگا کیونکہ میرے رب کے سوا دوسرا کوئی نہ مجھے نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان) اس نے کہا کہ پھر تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے تجھ سے اللہ بچائے گا جابر ؓ فرماتے ہیں صحابہ کرام نے (جب یہ دیکھا تو) اس کو دھمکایا، اس نے تلوار نیام میں رکھ کر اسے درخت سے لٹکا دیا حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں پھر (ظہر یا عصر کی) نماز کے لئے اذان ( اور تکبیر) کہی گئی چناچہ رسول اللہ ﷺ نے (پہلے) ایک جماعت کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں اور وہ جماعت ( دو رکعت نماز پڑھ کر دشمن کے مقابلے کے ارادے سے) پیچھے ہٹ گئی، پھر آپ نے دوسری جماعت کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں جابر ؓ فرماتے ہیں کہ (اس طرح) رسول اللہ ﷺ کی چار رکعتیں ہوئیں اور لوگوں کی دو دو رکعتیں ہوئیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نہ صرف یہ کہ نہایت شجاع تھے بلکہ کفار کی جانب سے پہنچائی جانے والی ایذا پر صبر کرتے تھے اور جاہل کفار اگر آپ کے ساتھ بےتمیزی کا کوئی معاملہ کرتے تھے تو آپ اسے انتہائی حلم کے ساتھ برداشت فرماتے تھے واقدی نے ذکر کیا ہے کہ جب اس مشرک نے غلط ادارے کے ساتھ تلوارنکالی تو اس کی پیٹھ میں شدید درد شروع ہوگیا جس سے وہ بو کھلا گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرگئی۔ وہ یہ حالت دیکھ مسلمان ہوگیا اور اس کی وجہ سے بہت زیادہ مخلوق نے ہدایت پائی۔ لیکن ابوعوانہ نے نقل کیا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہوا مگر اس نے یہ عہد کیا کہ کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نہیں لڑوں گا۔ بہر حال رسول اللہ ﷺ نے اس کی اس بد تمیزی پر اسے کوئی سزا نہیں دی۔ اس کیوجہ یا تو اس کی تالیف قلب تھی یا کوئی اور وجہ ہی ہوگی کہ آپ ﷺ نے اسے معاف فرما دیا۔ اس روایت کے بارے میں مولانا مظہر کا قول یہ ہے کہ اس سے پہلے نقل کی گئی روایت اور اس روایت میں اختلاف ہے باوجود اس کے دونوں روایتوں کا تعلق ایک ہی جگہ یعنی غزوہ ذات الرقاع سے ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ دونوں روایتیں ایک ہی جگہ سے متعلق ہیں مگر اوقات میں فرق و اختلاف ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں روایتوں کا محمول یہ ہوگا کہ غزوہ ذات الرقاع میں اس جگہ رسول اللہ ﷺ نے دو مرتبہ نماز پڑھی ہے۔ ایک مرتبہ تو اس طریقہ کے مطابق جو سہل ابن ابی حثمہ نے بیان کیا ہے اور ایک مرتبہ اس طریقے کے مطابق جو حضرت جابر ؓ بیان کر رہے ہیں۔ لہٰذا حضرت سہل کی روایت صبح کی نماز پر محمول کی جائے گی اور حضرت جابر کی اس روایت کا محمول ظہر یا عصر کی نماز ہوگی۔ یا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں روایتیں تعداد غزوات پر محمول کی جائیں گی۔ جیسا کہ حضرت جابر کے ارشاد سے ثابت ہو رہا ہے اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے چار رکعتیں پڑھیں اور دوسرے لوگوں کی دو ہی رکعتیں ہوئیں۔ تو علماء نے اس کی کئی وجہیں بیان کی ہیں ان میں سب سے صحیح اور بہتر توجیہ یہ ہے کہ یا تو یہ واقعہ آیت قصر کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے یا پھر یہ کہ جس جگہ یہ نماز پڑھی گئی تھی وہاں قصر واجب نہیں ہوتا تھا چناچہ امام اعظم ابوحنیفہ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور علماء نے حدیث کے الفاظ لقوم رکعتان کی مراد یہ بیان کی ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دو دو رکعتیں پڑھیں اور باقی دو دو رکعتیں تنہا تنہا پوری کیں۔ وا اللہ اعلم
Top