مشکوٰۃ المصابیح - نماز خوف کا بیان - حدیث نمبر 1393
وَعَنْ یَزِیْدَ بْنِ رُوْمَانَ رحمۃ اللہ علیہ عَنْ صَالِحِ بْنِ خَوَّاتٍ عَمَّنْ صَلّٰی مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَوْمَ ذَاتِ الرِّقَاعِ صَلٰوۃَ الْخَوْفِ اَنَّ طَائِفَۃً صَفَّتْ مَعَہ، وَ طَائِفَۃٌ وِجَاہَ الْعَدُوِّ فَصَلّٰی بِالَّتِیْ مَعَہ، رَکْعَۃً ثُمَّ ثَبَتَ قَائِمًا وَاَتَمُّوْا لِاَنْفُسِھِمِ ثُمَّ انْصَرَ فُوْا فَصَفُّوْا وِجَاہَ الْعَدُوِّ وَجَاءَ تِ الطَّائِفَۃُ الْاُخْرٰی فَصَلّٰی بِھِمُ الرَّکْعَۃَ الَّتِیْ بَقِیَتْ مِنْ صَلٰوتِہٖ ثُمَّ ثَبَتَ جَالِساً وَاَتَمُّوْا لِاَ نْفُسِھِمْ ثُمَّ سَلَّمَ بِھِمْ (صحیح البخاری و صحیح مسلم واخرج البخاری بطریق اثر عن القاسم عن صالح بن خوات عن سھل بن ابی حثمۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
نماز خوف کا ایک اور طریقہ
اور حضرت یزید ابن رومان حضرت صالح ابن خوات اور وہ اس آدمی سے جس نے سرتاج دو عالم ﷺ کے ہمراہ ذات الرقاع کے دن نماز خوف پڑھی تھی (نماز خوف کا یہ طریقہ) نقل کرتے ہیں کہ (اس دن) ایک جماعت نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ( نماز کے لئے) صف بندی کی اور دوسری جماعت دشمن کے مقابل صف آرا ہوگئی۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اس جماعت کے ہمراہ جو آپ ﷺ کے ساتھ تھی ایک رکعت نماز پڑھ کر رسول اللہ ﷺ کھڑے رہے اور اس جماعت نے خود اپنی نماز پوری کی (یعنی دوسری رکعت جماعت نے خود تنہا پڑھی) پھر اس کے بعد یہ جماعت) (نماز سے فارغ ہو کر) واپس ہوئی اور دشمن کے مقابل صف آرا ہوگئی اور وہ جماعت جو دشمن کے مقابل صف آرا تھی (نماز کے لئے) آئی چناچہ رسول اللہ ﷺ نے وہ دوسری رکعت جو باقی رہ گئی تھی اس جماعت کے ساتھ پڑھی اور (التحیات میں) بیٹھے رہے اور پھر اس جماعت نے اپنی وہ پہلی رکعت جو باقی تھی تنہا اور التحیات میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شریک ہوگئی پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کے ساتھ سلام پھیرا۔ ( صحیح البخاری نے اس روایت کو ایک اور سند کے ساتھ نقل کیا ہے یعنی اس طرح کہ قاسم وہ صالح ابن خوات سے اور وہ حضرت سہل ابن ابی حثمہ سے اور وہ رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں۔

تشریح
ذات الرقاع کے دن جس آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی تھی ان کا نام سہل ابن ابی حثمہ ہے کیونکہ محمد ابن قاسم نے صلوٰۃ الخوف کی حدیث صالح ابن خوات سے اور انہوں نے حضرت سہل ابن ابی حثمہ سے نقل کی ہے جیسا کہ صحیح البخاری کی روایت میں بیان کیا گیا ہے۔ ذات الرقاع ایک غزوے کا نام ہے جو ٥ ھ میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کفار کے مقابلے کے لئے گئے مگر بغیر جنگ کئے ہوئے واپسی ہوئی۔ اسی موقع پر یہ نماز پڑھی تھی۔ اس غزوے کو ذات الرقاع اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس وقت جو مسلمان غزوہ میں شریک ہونے کے لئے میدان جہاد کی طرف گئے تھے وہ ننگے پاؤں تھے جس کی وجہ سے ان کے پاؤں میں سوراخ ہوگئے تھے اور ناخن ٹوٹ گئے تھے چناچہ ان مجاہدین نے اپنے پاؤں پر رقاع یعنی چیتھڑے لپیٹ لئے تھے اسی مناسبت سے یہ غزوہ ذات الرقاع (یعنی چیتھڑوں) والا کے نام سے مشہور ہوا۔ اس حدیث میں نماز خوف کا جو طریقہ نقل کیا گیا ہے یہ ایک اور طریقہ ہے اس میں بھی ہر جماعت نے ایک ایک رکعت رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پڑھی اور ایک ایک رکعت تنہا پوری کی۔ لیکن یہاں فرق یہ ہے کہ ہر ایک جماعت نے جو ایک ایک رکعت تنہا پڑھی وہ رسول اللہ ﷺ کے نماز میں رہنے کے دوران ہی پڑھی جب کہ پہلے طریقے میں ہر ایک جماعت نے اپنی اپنی ایک رکعت نماز رسول اللہ ﷺ کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد پڑھی تھی۔ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے اسی طریقہ پر عمل کیا ہے جو اس حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔
Top