مشکوٰۃ المصابیح - نماز استسقاء کا بیان - حدیث نمبر 1483
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ شَکَی النَّاسُ اِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قُحُوْطَ الْمَطَرِ فَاَمَرَ بِمِنْبَر فَوُضِعَ لَہ، فِی الْمُصَلَّی وَوَعَدَ النَّاسَ یَوْمًا یَخْرُجُوْنَ فِیْہِ قَالَتْ عَائِشَۃُ فَخَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمحِیْنَ بَدَاَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَقَعَدَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَکَبَّرَ وَ حَمِدَ اﷲُ ثُمَّ قَالَ اِنَّکُمْ شَکَوْ تُمْ جَدْبَ دِیَارِ کُمْ وَاسْتِخَارَ الْمَطَرِ عَنْ اِبَّانَ زَمَانِہٖ عَنْکُمْ وَقَدْ اَمَرَ کُمُ اﷲُ اَنْ تَدْعُوْہُ وَوَعَدْکُمْ اَنْ یَّسْتَجِیْبَ لَکُمْ ثُمَّ قَالَ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ یَفْعَلُ مَا یُرِ یْدُ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ اﷲُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ الْغَنِیُّ وَنْحُنُ فُقَرَاءُ اَنْزِلْ عَلَیْنَا الْغَیْثَ وَاجْعَلْ مَا اَنْزَلْتَ لَنَا قُوَّۃً وَ َبلَاغًا اِلٰی حِیْنٍ ثُمَّ رَفَعَ یَدَیْہِ فَلَمْ یَتْرُکِ الرَّفْعِ حَتّٰی بَدَاَ بَیَاضُ اِبِطَیْہِ ثُمَّ حَوَّلَ اِلَی النَّاسِ ظَھْرَہ، وَقَلَّبَ اَوْحَوَّلَ رِدَاءَ ہُ وَھُوَرَافِعٌ یَدَیْہِ ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ وَنَزَلَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ فَاَنْشَاَ اﷲُ سَحَابَۃً فَرَ عَدَتْ وَبَرَ قَتْ ثُمَّ اَمْطَرَتْ بِاِذْنِ اﷲِ فَلَمْ یَاْتِ مَسْجِدَہ، حَتّٰی سَالَتِ السَّیُوْلُ فَلَمَّارَاٰی سُرْعَتَھُمْ اِلَی الْکِنَّ ضَحِکَ حَتّٰی بِدَتْ نَوَاَجِذُہ، فَقَالَ اَشْھَدُ اَنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَیْی ءٍ قَدِیْرٌ وَاِنِّیْ عَبْدُاﷲِ وَرَسُوْلَہ،۔ (رواہ ابوداؤد)
بارش کی دعا
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ لوگوں نے رسول کریم ﷺ سے بارش نہ ہونے کی شکایت کی، آپ ﷺ نے حکم دیا کہ عید گاہ میں منبر رکھا جائے چناچہ جب عید گاہ میں منبر رکھ دیا گیا تو آپ ﷺ نے لوگوں سے ایک دن کے بارے میں طے کیا کہ اس دن سب لوگ عید گاہ چلیں گے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ (متعین دن) کو رسول اللہ ﷺ سورج کا کنارہ ظاہر ہوتے ہی (عید گاہ) تشریف لے گئے اور منبر پر بیٹھ کر تکبیر کہی اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے اپنے شہروں کی قحط سالی اور بارش کے اپنے وقت پر نہ برسنے کی شکایت تھی اب اللہ تعالیٰ تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اس سے بارش کے لئے دعا مانگو اور اس نے وعدہ کیا ہے کہ تمہاری دعا قبول ہوگئی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے مہربان اور بخشش کرنے والا ہے یوم جزاء کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اے اللہ! تو معبود ہے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو غنی (بےپرواہ) ہے اور ہم فقیر و محتاج ہیں۔ ہم پر بارش برسا اور جو چیز کہ تو نازل کرے (یعنی بارش) اس کو ایک مدت دراز تک ہماری مدت اور (اس کے ذریعہ اپنے اپنے مقاصد و منافع تک) پہنچنے کا سبب بنا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اتنے بلند اٹھائے کہ آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی، پھر اپنی پشت مبارک لوگوں کی طرف پھیر کر اپنی چادر الٹی یا یہ کہ پھیری اور اپنے ہاتھ یوں ہی اٹھائے رہے پھر لوگوں کی طرف منہ کرے (منبر سے) نیچے تشریف لائے اور دو رکعت نماز پڑھی۔ جب ہی اللہ تعالیٰ نے بادل ظاہر فرمائے جو گرجنے لگے اور بجلی چمکنے لگی، چناچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بارش شروع ہوگئی یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنی مسجد تک نہ آئے پائے تھے کہ نالے بہنے لگے، جب آپ ﷺ نے لوگوں کو سایہ (یعنی بارش سے بچنے کے لئے محفوظ مقام) ڈھونڈھنے میں جلدی کرتے دیکھا تو ہنس پڑھے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی کچلیاں ظاہر ہوگئیں پھر فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول اللہ ہوں۔ (ابوداؤد)

تشریح
حضرت امام مالک حضرت امام شافعی اور ایک روایت کے مطابق حضرت امام احمد فرماتے ہیں کہ نماز استسقاء کے بعد دو خطبے پڑھنا سنت ہے اور خطبہ کی ابتداء استغفار کے ساتھ کرنی چاہیے جیسے کہ عیدین کے خطبہ کی ابتداء تکبیر کے ساتھ ہوتی ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ اور ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت امام احمد کے نزدیک خطبہ مشروع نہیں ہے صرف دعا و استغفار پر اکتفا کرنا چاہیے۔ حضرت ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ اصحاب سنن اربعہ نے حضرت اسحق ابن عبداللہ کنانہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (استسقاء کے لئے) عید گاہ جا کر تمہاری طرح خطبہ نہیں پڑھا بلکہ آپ ﷺ برابر دعا کرتے گریہ وزاری کرتے اور اللہ کی عظمت و بڑائی بیان کرتے رہے نیز آپ ﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی جیسا کہ عید میں پڑھتے تھے۔
Top