مشکوٰۃ المصابیح - مہر کا بیان - حدیث نمبر 3217
وعن جابر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : من أعطى في صداق امرأته ملء كفيه سويقا أو تمرا فقد استحل . رواه أبو داود (2/227) 3206 - [ 5 ] ( لم تتم دراسته ) وعن عامر بن ربيعة : أن امرأة من بني فزارة تزوجت على نعلين فقال لها رسول الله صلى الله عليه و سلم : أرضيت من نفسك ومالك بنعلين ؟ قالت : نعم . فأجازه . رواه الترمذي
مہر میں کچھ حصلہ علی الفور دیدینا بہتر ہے
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اپنی بیوی کے مہر میں سے کچھ حصہ بطور مہر معجل دیدیا مثلا دونوں ہاتھ بھر کر ستو یا کھجوریں دیدیں تو اس نے اس عورت کو اپنے لئے حلال کرلیا ہے ( ابوداؤد) اور حضرت عامر بن ربیعہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کی ایک عورت نے ایک جوڑی جوتی پر ایک شخص سے نکاح کیا تو رسول کریم ﷺ نے اس سے فرمایا کیا تم اپنی مالداری کے باوجود اپنے آپ کو ایک جوڑا جوتی کے بدلے حوالے کردینے پر راضی ہوگئیں یعنی اس کے باوجود کہ تم خود مالدار اور باحیثیت خاتون ہو کیا صرف ایک جوڑا جوتی کے بدلے اپنے آپ کو حوالے کردینے پر راضی ہو ( اس عورت نے کہا کہ ہاں میں راضی ہوں آپ ﷺ نے یہ جواب سن کر اس کو جائز رکھا (ترمذی)

تشریح
رفع تعارض کے پیش نظر اس حدیث کو بھی مہر معجل پر محمول کیا جائے گا لیکن اس کی یہ توضیح زیادہ مناسب ہے کہ جب اس عورت نے ایک جوڑا جوتی کے عوض نکاح کیا تو اس کا نکاح صحیح ہوگیا اور اسے اپنے مہر مثل کے مطالبہ کا حق حاصل ہوگیا جب وہ ایک جوڑا جوتی پر راضی ہوگئی تو گویا وہ اپنے مہر مثل میں سے ایک جوڑا جوتی سے زیادہ کے حق کے دستبردار ہوگئی لہذا رسول کریم ﷺ نے اس کو جائز رکھا اور چونکہ اس صورت میں اس کے جائز ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس لئے یہ حدیث حضرت امام شافعی وغیرہ کے مسلک کی دلیل نہیں ہوسکتی اور ویسے بھی یہ حدیث ضعیف ہے۔
Top