مشکوٰۃ المصابیح - مہر کا بیان - حدیث نمبر 3214
عن سهل بن سعد : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم جاءته امرأة فقالت : يا رسول الله إني وهبت نفسي لك فقامت طويلا فقام رجل فقال : يا رسول الله زوجنيها إن لم تكن لك فيها حاجة فقال : هل عندك من شيء تصدقها ؟ قال : ما عندي إلا إزاري هذا . قال : فالتمس ولو خاتما من حديد فالتمس فلم يجد شيئا فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : هل معك من القرآن شيء قال : نعم سورة كذا وسورة كذا فقال : زوجتكها بما معك من القرآن . وفي رواية : قال : انطلق فقد زوجتكها فعلمها من القرآن
مہر کی کم سے کم مقدار کیا ہونی چاہئے
اور حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ایک دن ایک عورت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے اپنے آپ کو آپ ﷺ کے لئے ہبہ کردیا یہ کہہ کر وہ عورت دیر تک کھڑی رہی یہاں تکہ کہ آنحضرت ﷺ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور ابھی آپ ﷺ خاموش ہی تھے کہ ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ اگر آپ اس عورت کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوں تو اس سے میرا نکاح کر دیجئے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جسے تم اس عورت کو مہر میں دے سکو؟ انہوں نے عرض کیا کہ اس تہبند کے علاوہ جسے میں باندھے ہوئے ہوں میرے پاس کوئی اور چیز نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ کوئی چیز ڈھونڈ لاؤ! اگرچہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو۔ جب صحابی نے بہت تلاش کیا اور انہیں کوئی چیز نہیں ملی تو پھر آپ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہیں قرآن میں سے کچھ یاد ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا قرآن میں سے جو کچھ تمہیں یاد ہے اس کے سبب میں نے تمہارا نکاح اس عورت سے کردیا۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ میں نے تمہارا نکاح اس عورت سے کردیا۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ میں نے تمہارا نکاح اس عورت سے کردیا تم اس کو قرآن کی تعلیم دیا کرو (بخاری ومسلم)

تشریح
آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں یہ حکم تھا کہ اگر کوئی عورت اپنے آپ کو آنحضرت ﷺ کے لئے ہبہ کردیتی تھی اور آپ ﷺ اس کے ہبہ کو قبول کرلیتے تھے تو وہ عورت آنحضرت ﷺ کے لئے حلال ہوجاتی تھی اور آپ ﷺ پر اس کا کچھ مہر واجب نہیں ہوتا تھا۔ یہ اور کسی کے لئے نہ آپ ﷺ کے وقت میں جائز تھا اور نہ اب جائز ہے بلکہ یہ آپ ﷺ کے خصائص میں سے تھا یعنی صرف آپ ﷺ ہی کے لئے جائز تھا چناچہ قرآن کریم کی یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے۔ اور اگر کوئی مؤمن عورت اپنے تئیں پیغمبر ﷺ کو ہبہ کر دے یعنی مہر لینے کے بغیر نکاح میں آنا چاہے) اور پیغمبر ﷺ بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں تو وہ عورت حلال ہے لیکن اے محمد یہ اجازت صرف آپ ہی کو ہے سب مسلمانوں کو نہیں۔ اس بارے میں فقہی تفصیل یہ ہے کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک بغیر مہر کے لفظ ہبہ کے ذریعہ نکاح کا جواز صرف آنحضرت ﷺ کے لئے تھا یہ کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے جب کہ حنفی مسلک یہ ہے کہ لفظ ہبہ کے ذریعہ نکاح کرنا تو سب کے لئے جائز ہے مگر اس صورت میں مہر کا واجب نہ ہونا صرف آنحضرت ﷺ کے لئے تھا لہذا اگر کوئی عورت اپنے آپ کو کسی شخص کے لئے ہبہ کرے اور وہ شخص اس ہبہ کو قبول کرلے تو اس ہبہ کے ذریعہ دونوں کے درمیان نکاح صحیح ہوجائے گا اور اس شخص پر مہر مثل واجب ہوگا اگرچہ وہ عورت مہر کا کوئی ذکر نہ کرے یا مہر کی نفی ہی کیوں نہ کر دے لہذا حنفی مسلک کے مطابق مذکورہ بالا آیت کے الفاظ (خَالِصَةً لَّكَ ) 33۔ الاحزاب 50) کے معنی ہیں کہ اپنے آپ کو ہبہ کردینے والی عورت کا مہر واجب ہوئے بغیر حلال ہونا صرف آپ ﷺ کے لئے ہے۔ (ولو خاتما من حدید) ( اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہو) سے معلوم ہوا کہ ازقسم مال کسی بھی چیز کا مہرباندھنا جائز ہے خواہ وہ چیز کتنی ہی کم تر کیوں نہ ہو بشرطیکہ مرد و عورت دونوں اس پر راضی ہوں چناچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے اس بارے میں امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کا جو مسلک ہے وہ ابتدائے باب میں ذکر کیا جا چکا ہے حنفیہ کی دلیل حضرت جابر کی یہ روایت ہے جس کو دارقطنی نے نقل کیا ہے کہ حدیث (لا تنکحوا النساء الا الاکفاء) الخ رسول کریم ﷺ نے فرمایا عورتوں کا نکاح ان کے کفو ہی سے کیا جائے گا اور عورتوں کا نکاح ان کے ولی کریں اور دس درہم سے کم مہر کا اعتبار نہیں ہے۔ نیز حنفی مسلک کی تائید دارقطنی اور بیہقی ہی میں منقول حضرت علی کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ دس درہم سے کم کا مہر معتبر نہیں) حضرت سہیل کی اس روایت کو حنفیہ نے مہر معجل پر محمول کیا ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کا یہ معمول تھا کہ آپ ﷺ ازواج مطہرات کے مقررہ مہر میں سے کچھ حصہ علی الفور عین جماع کرنے سے پہلے دیدیتے تھے اسی لئے آپ ﷺ نے ان صحابی کو بھی یہ حکم فرمایا کہ اگر تمہیں کوئی بھی چیز خواہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو مل جائے تو لے آؤ تاکہ نکاح کے بعد اس عورت کو مہر کے طور پر کچھ نہ کچھ دے سکو۔ اسی بناء پر بعض علماء نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ نکاح کے بعد اپنی بیوی سے اس وقت تک جماع نہ کیا جائے جب تک اس کے مہر میں سے کچھ نہ کچھ اسے دے دیا جائے چناچہ حضرت ابن عباس حضرت ابن عمر حضرت زہری اور حضرت قتادہ کا یہی مسلک تھا ان کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت علی نے حضرت فاطمہ سے نکاح کیا تو آنحضرت ﷺ نے انہیں حضرت فاطمہ کے پاس اس وقت تک جانے سے ممانعت کردی جب تک کہ وہ حضرت فاطمہ کو ان کے مہر میں سے کچھ نہ دیدیں حضرت علی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس وقت تو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم فاطمہ کو اپنی زرہ دیدو حضرت علی نے حضرت فاطمہ کو اپنی زرہ دیدی اور اس کے بعد ان کے پاس گئے اور یہ معلوم ہے کہ حضرت فاطمہ کا مہر چار سو مثقال چاندی کا تھا اور آنحضرت ﷺ نے حضرت علی کو اس مقررہ مہر سے ایک زرہ کی بقدر دینے کا حکم دیا تھا لہذا ان حضرات کے نزدیک مقررہ مہر میں سے علی الفور یعنی جماع سے قبل کچھ دیدینا واجب ہے جب کہ حنفیہ کے ہاں یہ مستحب ہے واجب نہیں ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے تعلیم قرآن کو مہر قرار دیا، چناچہ بعض ائمہ نے اسے جائز رکھا ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے وہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں یعنی تعلیم قرآن کو مہر قرار دے کے نکاح کرلینے کی صورت میں نکاح تو صحیح ہوجاتا ہے مگر خاوند پر مہر مثل واجب ہوتا ہے اور جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے تو ارشاد گرامی (بما معک) الخ میں حرف با بدل کے لئے نہیں ہے بلکہ سببیت کے اظہار کے لئے ہے یعنی اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ قرآن میں سے جو کچھ تمہیں یاد ہے اس کے سبب میں نے تمہارا نکاح اس عورت سے کردیا گویا تمہیں قرآن کا یاد ہونا اس عورت کے ساتھ ہوا تھا تو قبولیت اسلام ان کے نکاح کا سبب تھا اسے مہر قرار نہیں دیا گیا تھا۔ تم اس کو قرآن کی تعلیم دیا کرو یہ حکم بطور وجوب نہیں تھا بلکہ بطریق استحباب تھا لہذا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تعلیم قرآن کو مہر قرار دیا تھا۔
Top