مشکوٰۃ المصابیح - مستحاضہ کا بیان - حدیث نمبر 529
عَنْ اَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَیْسٍ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ اَبِی حُبَیْشٍ اُسْتُحِیْضَتْ مُنْذُکَذَا وَکَذَا فَلَمْ تُصَلِّ فَقَال رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم سُبْحَانَ اﷲِ اِنَّ ھٰذَا مِنَ الشَّیْطَانِ لِتَجْلِسْ فِی مِرْکَنٍ فَاِذَا رَأَتْ صَفَارَۃً فَوْقَ الْمَآءِ فَلْتَغْتَسِلْ لِلظُّھْرِوَ الْعَصْرِ غُسْلًا وَّاحِدًا وَّتَغْتَسِلْ الِلْمَغْرِبِ وَ العِشَآءِ غُسْلًا وَّاحِدًا وَّ تَغْتَسِلْ لِلْفَجْرِ غُسْلًا وَّاحِدًا وَّتَوَضَّأُ فِیْمَا بَیْنَ ذٰلِکَ۔ (رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَ قَالَ رَوَی مُجَاھِدٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ لَمَّا اَشْتَدَّ عَلَیْھَا الْغُسْلُ اَمَرَھَا اَنْ تَجْمَعَ بَیْنَ الصَّلاَتَیْنِ)
مستحاضہ کا بیان
حضرت اسماء بنت عمیس ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! فاطمہ ؓ بنت ابی حبیش کو (پہلی مرتبہ) اتنی مدت سے استحاضہ آرہا ہے اس لئے وہ (یہ خیال کر کے کہ شاید یہ بھی حیض کے حکم میں ہو) نماز نہیں پڑھ رہی۔ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا سبحان اللہ! یہ نماز کا چھوڑنا تو شیطانی اثر ہے؟ اسے چاہئے کہ ایک ٹب میں پانی ڈال کر بیٹھ جائے جس وقت پانی پر زردی معلوم ہونے لگے تو ظہر اور عصر کے لئے ایک غسل کرے اور مغرب و عشاء کے لئے ایک غسل کرلے اور فجر کے لئے علیحدہ ایک غسل کرے (اور جب ضرورت ہو تو عصر اور عشاء کے لئے) ان کے درمیان وضو کرے۔ (یہ روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ مجاہد نے حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ جب فاطمہ بنت ابی حییش کو (ہر نماز کے لئے) غسل کرنا دشوار معلوم ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو (ایک غسل سے) دو نمازیں اکٹھی پڑھنے کا حکم دیا)۔

تشریح
جب ظہر کا وقت بالکل آخر ہوجاتا ہے تو آفتاب پر قدرے زردی آجاتی ہے بلکہ زوال کے بعد تغیر ہونا شروع ہوجاتا ہے چناچہ آپ ﷺ نے ٹب میں دیکھنے کے لئے اس وجہ سے فرمایا کہ وہ زردی پانی سے آسانی سے معلوم ہوجاتی ہے وہ زردی بڑھتے بڑھتے مغرب کے قریب پوری ہوجاتی ہے اس وقت نماز پڑھنی مکروہ ہے لیکن آپ ﷺ نے جس زردی کے بارے میں فرمایا ہے یہ اس زردی کے علاوہ ہے جو عصر کے بعد ہوتی ہے اور وہ نماز کے لئے کراہت کا وقت ہوتا ہے۔
Top