مشکوٰۃ المصابیح - مستحاضہ کا بیان - حدیث نمبر 524
عَنْ عَآئِشَۃَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتْ جَآءَ تْ فَاطِمَۃُ بِنْتُ اَبِیْ حُبَےْشٍ اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَتْ ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنِّیْ امْرَاَۃٌ اُسْتَحَاضُ فَلَا اَطْھُرُ اَفَاَدَعُ الصَّلٰوۃَ فَقَالَ لَآ اِنَّمَا ذَالِکِ عِرْقٌ وَّلَےْسَ بِحَےْضٍ فَاِذَا اَقْبَلَتْ حَےْضَتُکِ فَدَعِی الصَّلٰوۃَ وَاِذَا اَدْبَرَتْ فَاغْسِلِیْ عَنْکِ الدَّمَ ثُمَّ صَلِّیْ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
مستحاضہ کا بیان
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ راوی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میں ایک ایسی عورت ہوں جسے برابر (استخاضہ کا) خون آتا رہتا ہے۔ چناچہ میں کسی وقت پاک نہیں رہتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں! یہ تو ایک رگ کا خون ہے، حیض کا خون نہیں ہے لہٰذا جب تمہیں حیض آنے لگے تو تم نماز چھوڑ دو اور جب حیض ختم ہوجائے تو جسم سے خون کو دھو ڈالو (اور نہا کر) نماز پڑھ لو۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
اس مسئلے میں کہ اگر کوئی عورت مستحاضہ ہوجائے اور وہ ہر وقت استخاضہ کے خون سے ناپاک رہے تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر وہ ایسی عورت ہو جو معتادہ ہو یعنی اس کے حیض کے ایام مقرر ہوں مثلاً اسے ہر ماہ پانچ روز یا چھ روز خون آتا تھا تو جب وہ مستحاضہ ہوجائے تو اسے چاہئے کہ ان دنوں کو جن میں حیض کا خون آتا تھا ایام حیض قرار دے اور ان دنوں میں نماز وغیرہ چھوڑ دے اور جب وہ دن پورے ہوجائیں تو خون کو دھو کر نہائے اور نماز وغیرہ شروع کر دے۔ اور اگر وہ مبتد یہ ہو یعنی ایسی عورت ہو کہ پہلا ہی حیض آنے کے بعد وہ مستحاضہ ہوگئی جس کے نتیجہ میں استخاضہ کا خون برابر جاری ہوگیا تو اسے چاہئے کہ وہ حیض کی انتہائی مدت یعنی دس دن کو ایام حیض قرار دے کر ان دنوں میں نماز وغیرہ چھوڑ دے اور بعد میں نہا دھو کر نماز وغیرہ شروع کر دے۔ اس صورت میں دوسرے ائمہ کے نزدیک عمل تمیز پر ہوگا یعنی اگر خون سیاہ رنگ کا ہو تو اسے حیض کا خون قرار دیا جائے گا اور اگر سیاہ رنگ کا نہ ہو تو وہ استحاضہ کا خون کہلائے گا جیسے کہ آگے والی حدیث سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اس حدیث کے بارے میں جو آگے آرہی ہے اور جو حضرت عروہ ؓ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دو طرق سے روایت کی گئی ہے ایک تو ان میں سے مرسل ہے اور دوسری مضطرب اور یہ عجیب بات ہے کہ خون کے رنگ میں امتیاز کی بات صرف عروہ کی روایت ہی میں مذکور ہے جس کا حال معلوم ہوچکا کہ ایک طریق سے تو وہ مرسل ہے اور دوسرے طریقے سے مضطرب لہٰذا اس حدیث پر کسی مسلک کی بنیاد رکھنا گویا اس مسلک کو کمزور کرنا ہے۔ اور یہ حدیث جو اوپر گزری جس میں دنوں کا اعتبار ہے اور جو ہماری دلیل ہے صحیح ہے لہٰذا اس حدیث پر عمل کرنا اولیٰ ہے اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فاطمہ بنت حبیش ؓ جنہوں نے بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر اپنے بارے میں حکم دریافت کیا تھا معتادہ تھیں۔ حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ مستحاضہ کو چاہئے کہ وہ ہر فرض نماز کے لئے اپنی شرم گاہ دھو لیا کرے۔ اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ جب نماز کا وقت آئے جب ہی اپنی شرم گاہ دھو لے پھر نہ دھوئے اور لنگوٹا باندھ کر جلدی جلدی وضو کرلے اس کے بعد جو خون جاری رہے گا اس میں وہ معذور ہوگی لہٰذا آخر وقت تک وہ جو چاہے پڑھے۔
Top