مشکوٰۃ المصابیح - لعان کا بیان - حدیث نمبر 3320
وعن سعد بن أبي وقاص وأبي بكرة قالا : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من ادعى إلى غير أبيه وهو يعلم أنه غير أبيه فالجنة عليه حرام وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا ترغبوا عن آبائكم فمن رغب عن أبيه فقد كفر وذكر حديث عائشة ما من أحد أغير من الله في باب صلاة الخسوف
اپنے باپ کا انکار کرنیوالے کے بارے میں وعید
اور حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابوبکرہ دونوں راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے آپ کو اپنے باپ کے بجائے کسی دوسرے شخص کی طرف منسوب کرے اور وہ یہ جانتا بھی ہو کہ یہ میرا باپ نہیں ہے تو اس پر جنت حرام ہے ( بخاری و مسلم)

تشریح
اس پر جنت حرام ہے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کی بجائے کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کرتا ہے اور وہ اس بات کو برا نہیں جانتا بلکہ اس کا اعتقاد ہے کہ اپنے نسب میں اس طرح خلط ملط کرنا حلال ہے تو ایک حرام چیز کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے وہ کفر کی حد میں پہنچ گیا اور جب وہ کفر کی حد میں پہنچ گیا اور اسی حال میں مرگیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس پر جنت کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند رہیں گے اور اگر وہ شخص کفریہ عقیدہ نہیں رکھتا ( یعنی باپ کی بجائے کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کرنے کو حلال نہیں جانتا بلکہ حرام ہی جانتا ہے تو اس صورت میں اس پر جنت حرام ہے کا مطلب یہ ہوگا کہ اس وقت اس پر جنت کے دروازے بند رہیں گے جب تک کہ وہ اپنے اس گناہ کی سزا نہ بھگت لے گا۔ یا پھر یہ کہا جائے گا کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد کہ اس پر جنت حرام ہے زجر یعنی تنبیہ کے طور پر ہے جس کا مقصد لوگوں کو اس برائی سے روکنا ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم غیر شخص سے اپنا نسب جوڑ کر اپنے باپ سے منہ نہ پھیرو کیونکہ جس شخص نے اپنے باپ سے منہ پھیرا یعنی اس سے اپنے نسب کا انکار کیا) تو اس نے درحقیقت کفران نعمت کیا (بخاری ومسلم) تشریح زمانہ جاہلیت میں یہ ایک عام برائی تھی کہ لوگ اپنے اصل باپ سے اپنے نسب کا انکار کر کے دوسروں کو اپنا باپ قرار دیتے تھے چناچہ آنحضرت ﷺ نے اس برائی سے منع فرمایا۔ اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ جان بوجھ کر اصل باپ کی بجائے کسی غیر شخص سے اپنا نسب قائم کرنا حرام ہے اور اگر کسی شخص نے غیر شخص سے اپنا نسب قائم کرنے کو مباح جانا اور اس کا عقیدہ رکھا تو وہ کافر ہوجائے گا کیونکہ ایسی چیز کے حلال و مباح ہونے کا عقیدہ رکھنا جس کو پوری امت نے حرام قرار دیا ہے کفر ہے اس صورت میں حدیث کے الفاظ فقد کفر اپنے حقیقی معنی پر محمول ہوں گے اور اگر کرنیوالا مباح ہونے کا یقین نہیں رکھتا تو اس صورت میں کفر کے دو معنی ہوں گے ایک تو یہ کہ اس شخص نے کفار کے فعل کی مشابہت اختیار کی دوسرے یہ کہ اس نے کفران نعمت کیا ہے اور حضرت عائشہ کی حدیث ( ما من احد غیر من اللہ) باب صلوۃ الخسوف میں نقل کی جا چکی ہے۔
Top