مشکوٰۃ المصابیح - لعان کا بیان - حدیث نمبر 3319
وعنها قالت : دخل علي رسول الله صلى الله عليه و سلم ذات يوم وهو مسرور فقال : أي عائشة ألم تري أن مجززا المدلجي دخل فلما رأى أسامة وزيدا وعليهما قطيفة قد غطيا رؤوسهما وبدت أقدامهما فقال : إن هذه الأقدام بعضها من بعض
اثبات نسب میں قیافہ شناس کا قول معتبر ہے یا نہیں؟
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ بہت خوش میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ عائشہ! کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ آج مجزر مدلجی مسجد نبوی میں آیا) اور جب اس نے اسامہ اور زید کو دیکھا جو اس طرح چادر اوڑھے ہوئے لیٹے تھے اور ان کے سر چھپے ہوئے تھے اور پیر کھلے ہوئے تھے تو اس نے کہا کہ ان دونوں کے پیر ایک دوسرے کے مطابق ہیں یعنی یہ پیر جن دو آدمیوں کے ہیں وہ آپس میں باپ بیٹے ہیں ( بخاری و مسلم)

تشریح
حضرت زید بن حارثہ جو آنحضرت ﷺ کے متبنی (لے پالک) تھے بہت گورے اور خوبصورت تھے جب کہ ان کے صاحبزادے حضرت اسامہ کالے تھے اور اپنی ماں کے ہم رنگ تھے ان کی ماں جن کا نام ام ایمن تھا ایک لونڈی اور کالے رنگ کی تھیں باپ بیٹے رنگت کے اس فرق کی وجہ سے منافق حضرت اسامہ کے نسب میں عیب لگاتے تھے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ ایسے حسین اور خوبصورت باپ کا بیٹا اتنا کالا کیسے ہوسکتا ہے؟ چناچہ آنحضرت ﷺ منافقوں کی اس بات سے بہت کبیدہ خاطر ہوتے تھے کہ اسی دوران میں یہ واقعہ پیش آیا۔ مجزر مدلجی عرب کا ایک مشہور قیافہ شناس اور اپنے فن میں یگانہ روزگار تھا وہ آدمی کی صورت دیکھ کر اس کے حالات و کوائف اور اوصاف و خصوصیات معلوم کرلیا کرتا تھا چناچہ مسجد نبوی میں آیا اور اس نے حضرت زید اور حضرت اسامہ کے پیر دیکھے تو اس نے علم قیافہ کی رو سے یہ فیصلہ کیا کہ یہ پیر جن دو آدمیوں کے ہیں ان دونوں کو آپس میں باپ بیٹا ہونا چاہئے۔ آنحضرت ﷺ اس بات سے بہت خوش ہوئے کیونکہ اہل عرب کے ہاں قیافہ شناس کا قول معتبر ہوتا تھا اور اس کے فیصلہ کو سند کا درجہ دیا جاتا تھا لہذا آنحضرت ﷺ کو یہ بھی اطمینان ہوگیا کہ اب جب کہ اسامہ کا نسب اس سند سے ثابت ہوگیا ہے تو منافقین بھی ان کے نسب کے بارے میں طعن کرنے کی ہمت نہیں کریں گے۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ اس حدیث سے لازم نہیں آتا کہ شرعی احکام اور اثبات نسب میں قیافہ شناس کا قول معتبر ہوتا ہے چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہی ہے البتہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ قیافہ شناس کے قول کو معتبر مانتے ہیں یہاں تک کہ ان کے مسلک میں یہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی لونڈی دو آدمیوں کی مشترک ملکیت ہو اور اس کے بچہ پیدا ہو اور پھر وہ دونوں شریک اس بچہ کے نسب کا دعوی کریں یعنی ہر ایک یہ کہے کہ یہ میرا بچہ ہے تو اس صورت میں ان دونوں کو قیافہ شناس کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ اور وہ قیافہ شناس اپنے قیافہ کی بنیاد پر جو فیصلہ کرے اس کو قبول کرلینا چاہئے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اس صورت میں وہ بچہ شرعی حکم کے اعتبار سے دونوں کا ہوگا اگرچہ واقعہ کے اعتبار سے وہ کسی ایک کا ہوگا اور وہ لونڈی دونوں کی ام ولد ہوگی۔
Top