مشکوٰۃ المصابیح - لعان کا بیان - حدیث نمبر 3317
وعنه أن أعرابيا أتى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : إن امرأتي ولدت غلاما أسود وإني نكرته فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : هل لك من إبل ؟ قال : نعم قال : فما ألوانها ؟ قال : حمر قال : هل فيها من أورق ؟ قال : إن فيها لورقا قال : فأنى ترى ذلك جاءها ؟ قال : عرق نزعها . قال : فلعل هذا عرق نزعه ولم يرخص له في الانتفاء منه
محض معمولی علامتوں کی بناء پر اپنے بچہ کا انکار نہ کرو
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری بیوی نے ایک ایسے بچے کو جنم دیا ہے جس کا رنگ کالا ہے اور اس وجہ سے کہ وہ میرا ہم رنگ نہیں ہے) میں نے اس کا انکار کردیا ہے (یعنی یہ کہہ دیا ہے کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے) رسول کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ اونٹ ہیں، اس نے عرض کیا کہ ہاں ان میں خاکسری رنگ کے بھی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے کہ یہ خاکستری رنگ کے اونٹ کہاں سے آگئے ( یعنی ان میں خاکستری رنگ کہاں سے آیا جب کہ ان کے ماں باپ خاکستری رنگ کے نہیں ہیں؟ ) اس نے عرض کیا کہ کوئی ٰرگ ہوگی جس نے انہیں کھینچ لیا ( یعنی ان کی اصل میں کوئی خاکستری کا رہا ہوگا جس کے مشابہ یہ بھی ہوگئے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو پھر یہ بچہ بھی کسی ایسی رگ کے سبب کالا ہوا ہے جس نے اس کو کھینچ لیا ہے یعنی اس بچہ کی اصل میں بھی کوئی شخص کالے رنگ کا رہا ہوگا جس کے مشابہ یہ بچہ ہوگیا ہے اور اس طرح آنحضرت ﷺ نے اس دیہاتی کو اس بچہ کا انکار کرنے کی اجازت نہیں دی ( بخاری و مسلم)

تشریح
طیبی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ محض معمولی اور ضعیف علامتوں کی بناء پر اپنے بچہ کا انکار کرنا یعنی یہ کہنا کہ یہ بچہ میرا نہیں ہے ممنوع ہے بلکہ اس صورت میں مضبوط دلائل و وجوہ کا ہونا ضروری ہے مثلا بیوی سے صحبت نہ کی ہو اور اس کے باوجود بچہ کی ولادت ہوئی ہو یا صحبت کی ہو مگر صحبت کے بعد چھ مہینہ سے کم مدت میں بچہ پیدا ہوا ہو اور ان صورتوں میں اس بچہ کا انکار کردینا جائز ہے۔
Top