مشکوٰۃ المصابیح - لعان کا بیان - حدیث نمبر 3315
وعن المغيرة قال : قال سعد بن عبادة : لو رأيت رجلا مع امرأتي لضربته بالسيف غير مصفح فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال : أتعجبون من غيرة سعد ؟ والله لأنا أغير منه والله أغير مني ومن أجل غيرة الله حرم الله الفواحش ما ظهر منها وما بطن ولا أحد أحب إليه العذر من الله من أجل ذلك بعث المنذرين والمبشرين ولا أحد أحب إليه المدحة من الله ومن أجل ذلك وعد الله الجنة
اللہ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں ہے
اور حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ حضرت سعد نے یہ کہا کہ اگر میں کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھوں تو میں اس کو تلوار سے مار دوں اور تلوار کی پشت کی جانب سے نہیں بلکہ دھار والی جانب سے ماروں حاصل یہ کہ میں تلوار سے اس کا خاتمہ کر دوں جب رسول کریم ﷺ تک یہ بات پہنچی کہ سعد اس طرح کہتے ہیں) تو آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ تمہیں سعد کی اس غیر معمولی غیرت مندی پر تعجب ہے؟ اللہ کی قسم میں یقینًا ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے اور اللہ نے اپنی غیرت ہی کی وجہ سے تمام گناہوں کو حرام کیا ہے خواہ وہ ظاہری گناہ ہوں یا پوشیدہ گناہ ہوں اور عذر کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں رکھتا اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ڈرانے والوں اور بشارت دینے والوں یعنی پیغمبروں کو بھیجا ہے نیز تعریف کرنے کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی پسند نہیں کرتا اور اسی کے سبب اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہے ( بخاری ومسلم)

تشریح
اور اللہ تعالیٰ نے اپنی غیرت ہی کی وجہ سے گناہوں کو حرام کیا ہے یہ جملہ دراصل اللہ تعالیٰ کی غیرت کی وضاحت کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کے معنی یہ ہیں کہ اس نے لوگوں کو حرام امور اختیار کرنے سے منع کیا ہے اور حرام امور کو اختیار کرنے پر عذاب مقرر کیا ہے چناچہ اصل میں غیرت کا مطلب یہی ہے کہ آدمی اس بات کو ناپسند کرے اور اس پر ناراض ہو کہ کوئی اس کی ملکیت میں تصرف کرے۔ اور غیرت کا مشہور معنی یہ ہے کہ آدمی اس شخص پر غصہ کرے جو اس کی بیوی کے ساتھ بدکاری کرے یا اس کو نظر بد سے دیکھے لہذا اللہ تعالیٰ کی غیرت یہ ہے کہ وہ اس شخص پر غصہ کرے جو گناہ کا مرتکب ہو۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ عذر کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں رکھتا میں عذر اعزار یعنی ازالہ عذر کے معنی میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ عذر ختم کردینے کو پسند کرتا ہے اس طرح کوئی اور عذر کو ختم کرنے کو پسند نہیں کرتا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں پیغمبروں اور رسولوں کو بھیجا ہے تاکہ اس طرف سے اتمام حجت ہوجائے اور بندوں کو عذر کرنے کا موقع نہ ملے۔ جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ا یت (لئلا یکون علی اللہ حجۃ بعد الرسل) تاکہ لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے سامنے پیغمبروں کے بعد کوئی عذر باقی نہ رہے تعریف کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی پسند نہیں کرتا، کا مطلب یہ ہے کہ تعریف کرنے کو جتنا اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اتنا کوئی اور پسند نہیں کرتا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تعریف بھی فرمائی ہے اور اپنے محبوب بندوں کی بھی تعریف کی ہے اور ان لوگوں کو جنت میں داخل کرنے کا وعدہ کیا ہے جو اس کی حمد و تعریف کرتے ہیں اور اس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔
Top