مشکوٰۃ المصابیح - لعان کا بیان - حدیث نمبر 3314
وعن أبي هريرة قال : قال سعد بن عبادة : لو وجدت مع أهلي رجلا لم أمسه حتى آتي بأربعة شهداء ؟ قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : نعم قال : ٍ بالحق إن كنت لأعاجله بالسيف قبل ذلك قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : اسمعوا إلى ما يقول سيدكم إنه لغيور وأنا أغير منه والله أغير مني . رواه مسلم
زنا کی تہمت چار گواہوں کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک صحابی سعد نے کہا کہ اگر میں کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے پاس پاؤں تو جب تک کہ چار گواہ فراہم نہ کرلوں اس کو ہاتھ نہ لگاؤں۔ یعنی نہ اس کو ماروں اور نہ قتل کروں) رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہاں سعد نے کہا کہ ہرگز نہیں قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں قبل اس کے کہ چار گواہ فراہم کروں فوری طور پر تلوار سے اس کا خاتمہ کر دوں گا۔ آنحضرت ﷺ نے حاضرین مجلس کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سنو تمہارا سردار یعنی سعد کیا کہہ رہا ہے بلاشبہ وہ غیرت مند ہے میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے (مسلم)

تشریح
آنحضرت ﷺ کا یہ جواب سن کر حضرت سعد نے جو کچھ کہا اس سے نہ تو آنحضرت ﷺ کے قول کی تردید مقصود تھی اور نہ آنحضرت ﷺ کے حکم کی مخالفت منظور تھی بلکہ انہوں نے اپنی اس بات کے ذریعہ دراصل اپنی طبیعت اور اپنے مزاج کے بارے میں بتایا۔ کہ میرا حال تو یہ ہے کہ میرے غصہ اور میری غیرت کا یہ عالم ہے کہ اگر میں اپنی بیوی کے پاس کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو اس کو فورًا قتل کر دوں جب کہ اس بارے میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب تک چار گواہ فراہم نہ کرلو اس کو کچھ نہ کہو تو اس صورت میں میرے لئے کونسا راستہ ہے؟ اس لئے آنحضرت ﷺ نے حضرت سعد کی یہ بات سن کر لوگوں کو ان کی طرف متوجہ کیا کہ سنو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے گویا آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کہ سنو تمہارا سردار کیا کہہ رہا ہے؟ کی مراد حضرت سعد کے وصف کی تعریف کرنا ہے اور اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ طبیعت و مزاج میں اتنی غیرت کا ہونا بزرگوں کی صفات اور سرداروں کی عادات میں سے ہے اگرچہ اس معاملہ میں شریعت کا حکم دوسرا ہے جس پر عمل کرنا غیرت مندی کے تقاضا پر عمل کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ حضرت سعد کی بات کی تقریر یعنی تائید و توثیق نہیں فرمائی بلکہ آپ ﷺ نے ان کا عذر بیان کیا کہ حضرت سعد نے جو بات کہی ہے اور جس سے بظاہر میرے حکم کی خلاف ورزی معلوم ہوتی ہے وہ دراصل ان کی غیر معمولی غیرت مندی کی وجہ سے سے ان کی زبان سے نکل گئی ہے۔ حضرت مظہر فرماتے ہیں کہ حضرت سعد کا آنحضرت ﷺ کو مذکورہ جواب دینا آنحضرت کے حکم کی مخالفت یا آپ ﷺ کے ارشاد کو قبول کرنے سے انکار کردینے کے طور پر نہیں تھا بلکہ درحقیقت ان کی اس خواہش کے اظہار کے طور پر تھا کہ اگر کوئی غیرت مند کسی غیر مرد کو اپنی بیوی کے پاس پائے تو اس کو قتل کردینے کی اجازت عطا ہوجائے چناچہ جب آنحضرت نے یہ اجازت دینے سے ایک بلیغ انداز میں انکار کردیا تو انہوں نے سکوت اختیار کرلیا۔ غیرت آدمی کی اندرونی کیفیت و حالت کے اس تغیر کو کہتے ہیں جو اپنے اہل میں کسی ناگوار چیز کو دیکھنے پر پیدا ہوتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کی نسبت اسی معنی کے اعتبار سے محال و ناممکن ہے لہذا اللہ تعالیٰ کے غیرت مند ہونے کی معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے بندوں کو گناہوں سے روکنے والا ہے تاکہ وہ اس کی بارگاہ کی قربت و مقبولیت سے دور نہ جا پڑیں۔
Top