مشکوٰۃ المصابیح - لعان کا بیان - حدیث نمبر 3313
وعن ابن عباس : أن هلال بن أمية قذف امرأته عند النبي صلى الله عليه و سلم بشريك بن سحماء فقال النبي صلى الله عليه و سلم : البينة أو حدا في ظهرك فقال : يا رسول الله إذا رأى أحدنا على امرأته رجلا ينطلق يلتمس البينة ؟ فجعل النبي صلى الله عليه و سلم يقول : البينة وإلا حد في ظهرك فقال هلال : والذي بعثك بالحق إني لصادق فلينزلن الله ما يبرئ ظهري من الحد فنزل جبريل وأنزل عليه : ( والذين يرمون أزواجهم ) فقرأ حتى بلغ ( إن كان من الصادقين ) فجاء هلال فشهد والنبي صلى الله عليه و سلم يقول : إن الله يعلم أن أحدكما كاذب فهل منكما تائب ؟ ثم قامت فشهدت فلما كانت عند الخامسة وقفوها وقالوا : إنها موجبة فقال ابن عباس : فتلكأت ونكصت حتى ظننا أنها ترجع ثم قالت : لا أفضح قومي سائر اليوم فمضت وقال النبي صلى الله عليه و سلم : أبصروها فإن جاءت به أكحل العينين سابغ الأليتين خدلج الساقين فهو لشريك بن سحماء فجاءت به كذلك فقال النبي صلى الله عليه و سلم : لولا ما مضى من كتاب الله لكان لي ولها شأن . رواه البخاري
آیت لعان کا شان نزول
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک صحابی ہلال ابن امیہ نے نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنی بیوی شریک ابن سحماء صحابی کے ساتھ زنا کی تہمت لگائی یعنی ہلال نے کہا کہ شریک ابن سحماء نے میری بیوی کے ساتھ زنا کیا ہے) نبی کریم ﷺ نے ہلال سے فرمایا کہ اپنے الزام کے ثبوت میں گواہ پیش کرو ورنہ جھوٹی تہمت لگانے کے جرم میں تمہاری پیٹھ پر حد جاری کی جائے گی یعنی اسی کوڑے مارے جائیں گے ہلال نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اگر ہم میں سے کوئی کسی کو اپنی بیوی کے ساتھ بدکاری میں مبتلا دیکھے تو کیا وہ گواہ ڈھونڈھنے چلا جائے؟ یعنی اول تو ایسی صورت میں اتنا موقع کہاں کہ کسی کو گواہ کرے پھر یہ کہ کسی کو گواہ کرنے کی وہ جگہ کیا ہے لیکن نبی کریم ﷺ یہی فرمائے جا رہے تھے کہ گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد جاری کی جائے گی پھر ہلال نے عرض کیا کہ قسم ہے اس پاک ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا میں سچا ہوں مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا حکم ضرور نازل فرمائے گا جو میری پیٹھ کو حد سے بری رکھے گا، آخر کا کچھ ہی عرصہ بعد حضرت جبرائیل تشریف لائے اور آنحضرت ﷺ پر یہ آیتیں نازل کی گئی ہیں آیت (وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ ) 24۔ النور 26) ( یعنی اور جو لوگ کہ اپنی بیویوں کو تہمت لگاتے ہیں الخ پھر اس کے بعد کی آیتوں (اِنْ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ ) 24۔ النور 26) تک تلاوت کی اس کے بعد ہلال دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور گواہی دی یعنی لعان کی جو تفصیل پیچھے بیان کی جا چکی ہے اس کے ساتھ انہوں نے پانچ مرتبہ گواہی کے ذریعہ لعان کیا اور نبی کریم ﷺ فرماتے تھے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں تم سے کوئی ایک جھوٹا ہے سو تم میں سے کون ہے جو توبہ کرے اس کے بعد ہلال کی بیوی کھڑی ہوئی اور لعان کیا یعنی چار مرتبہ اپنی پاکدامنی کی شہادت دی اور جب وہ پانچویں مرتبہ گواہی دینے چلی تو صحابہ نے اس کو روکا اور کہا کہ اچھی طرح سوچ سمجھ لو یہ پانچویں گواہی تم دونوں کے درمیان جدائی کو واجب کردے گی یا اگر تم جھوٹی ہوگی تو آخرت میں عذاب کو واجب کر دے گی ابن عباس کہتے ہیں یہ سن کر وہ عورت ٹھہر گئی اور پیچھے ہٹی یعنی وہ پانچویں مرتبہ کچھ گواہی دینے میں متامل ہوئی جس سے ہمیں یہ گمان ہوا کہ یہ اپنی بات سے پھر جائے گی لیکن پھر اس نے کہا کہ میں لعان سے بچ کر اور اپنے خاوند کے الزام کی تصدیق کر کے اپنی قوم کو ساری عمر کے لئے رسوا نہیں کروں گی یہ کہہ کر اس نے پانچویں گواہی کو بھی پورا کیا اس طرح جب لعان پورا ہوگیا اور آنحضرت ﷺ نے دونوں میاں بیوی کے درمیان جدائی کرا دی تو آپ نے فرمایا کہ اس کو دیکھتے رہنا اگر اس نے ایسے بچے کو جنم دیا جس کی آنکھیں سرمئی کو ل ہے بھاری اور پنڈلیاں موٹی ہوں تو وہ بچہ شریک ابن سحماء کا ہوگا کیونکہ شریک اسی طرح کے ہیں چناچہ جب اس عورت نے ایسے ہی بچہ کو جنم دیا جو شریک کے مشابہ تھا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ کا مذکورہ حکم نہ ہوتا جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لعان کرنیوالوں پر تعزیر جاری نہیں ہوگی) تو پھر میں اس عورت کے ساتھ دوسرا ہی معاملہ کرتا یعنی شریک کے ساتھ اس بچہ کی مشابہت اس عورت کی بدکاری کا ایک واضح قرینہ ہے اس لئے اس کی اس بدکاری پر میں اس کو ایسی سزا دیتا کہ دیکھنے والوں کو عبرت ہوتی (بخاری)

تشریح
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے حضرت ہلال نے لعان کیا ہے اور اس موقع پر لعان کے سلسلہ میں مذکورہ آیت نازل ہوئی اس بارے میں جو تحقیقی تفصیل ہے وہ حضرت سہل کی روایت کی تشریح میں بیان ہوچکی ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے الخ، بظاہر زیادہ صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے یہ بات ان دونوں کے لعان سے فارغ ہونے کے بعد ارشاد فرمائی اور اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ جو بھی شخص کوئی جھوٹی بات کہے یا کسی پر جھوٹی تہمت لگائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ توبہ کرے بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یہ بات لعان سے پہلے ان دونوں کو جھوٹ کے عواقب سے ڈرانے کے لئے ارشاد فرمائی تھی۔ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ حاکم و قاضی کسی بھی معاملہ میں اپنے گمان و خیال قرائن اور کسی علامت کی بنیاد پر کوئی حکم نہ دے بلکہ وہی حکم دے جس کے دلائل و شواہد تقاضا کریں۔
Top