مشکوٰۃ المصابیح - - حدیث نمبر 4480
حدیث نمبر: 4480
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ،‏‏‏‏ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَكْرٍ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ،‏‏‏‏ عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ،‏‏‏‏ بِقُدُوم رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهْوَ فِي أَرْضٍ يَخْتَرِفُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ فَمَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ ؟ وَمَا أَوَّلُ طَعَامِ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ وَمَا يَنْزِعُ الْوَلَدُ إِلَى أَبِيهِ أَوْ إِلَى أُمِّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي بِهِنَّ جِبْرِيلُ آنِفًا،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ جِبْرِيلُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ ذَاكَ عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ سورة البقرة آية 97 أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَارٌ تَحْشُرُ النَّاسَ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَزِيَادَةُ كَبِدِ حُوتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ نَزَعَ الْوَلَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الْمَرْأَةِ نَزَعَتْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ،‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّهُمْ إِنْ يَعْلَمُوا بِإِسْلَامِي قَبْلَ أَنْ تَسْأَلَهُمْ يَبْهَتُونِي، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَتْ الْيَهُودُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَيُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللَّهِ فِيكُمْ ؟قَالُوا:‏‏‏‏ خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا، ‏‏‏‏‏‏وَسَيِّدُنَا وَابْنُ سَيِّدِنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ ؟فَقَالُوا:‏‏‏‏ أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا وَانْتَقَصُوهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهَذَا الَّذِي كُنْتُ أَخَافُ يَا رَسُولَ اللَّهِ.
باب: اللہ تعالیٰ کے ارشاد «من كان عدوا لجبريل» کی تفسیر۔
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن بکر سے سنا، اس نے کہا کہ مجھ سے حمید نے اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن سلام ؓ (جو یہود کے بڑے عالم تھے) نے رسول اللہ کی (مدینہ) تشریف لانے کی خبر سنی تو وہ اپنے باغ میں پھل توڑ رہے تھے۔ وہ اسی وقت نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں آپ سے ایسی تین چیزوں کے متعلق پوچھتا ہوں، جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ بتلائیے! قیامت کی نشانیوں میں سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟ اہل جنت کی دعوت کے لیے سب سے پہلے کیا چیز پیش کی جائے گی؟ بچہ کب اپنے باپ کی صورت میں ہوگا اور کب اپنی ماں کی صورت پر؟ نبی کریم نے فرمایا کہ مجھے ابھی جبرائیل نے آ کر ان کے متعلق بتایا ہے۔ عبداللہ بن سلام بولے جبرائیل (علیہ السلام) نے! فرمایا: ہاں، عبداللہ بن سلام نے کہا کہ وہ تو یہودیوں کے دشمن ہیں۔ اس پر آپ نے یہ آیت تلاوت کی من کان عدوا لجبريل فإنه نزله على قلبک‏ اور ان کے سوالات کے جواب میں فرمایا، قیامت کی سب سے پہلی نشانی ایک آگ ہوگی جو انسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف جمع کر لائے گی۔ اہل جنت کی دعوت میں جو کھانا سب سے پہلے پیش کیا جائے گا وہ مچھلی کے جگر کا بڑھا ہوا حصہ ہوگا اور جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غلبہ کرجاتا ہے تو بچہ باپ کی شکل پر ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غلبہ کرجاتا ہے تو بچہ ماں کی شکل پر ہوتا ہے۔ عبداللہ بن سلام ؓ بول اٹھے أشهد أن لا إله إلا الله،‏‏‏‏ وأشهد أنک رسول الله‏.‏ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ (پھر عرض کیا) یا رسول اللہ! یہودی بڑی بہتان باز قوم ہے، اگر اس سے پہلے کہ آپ میرے متعلق ان سے کچھ پوچھیں، انہیں میرے اسلام کا پتہ چل گیا تو مجھ پر بہتان تراشیاں شروع کردیں گے۔ بعد میں جب یہودی آئے تو نبی کریم نے دریافت فرمایا کہ عبداللہ تمہارے یہاں کیسے آدمی سمجھے جاتے ہیں؟ وہ کہنے لگے، ہم میں سب سے بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے! ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں پھر تمہارا کیا خیال ہوگا؟ کہنے لگے، اللہ تعالیٰ اس سے انہیں پناہ میں رکھے۔ اتنے میں عبداللہ بن سلام ؓ نے ظاہر ہو کر کہا أشهد أن لا إله إلا الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأن محمدا رسول الله‏.‏ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اب وہی یہودی ان کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ ہم میں سب سے بدتر ہے اور سب سے بدتر شخص کا بیٹا ہے اور ان کی توہین شروع کردی۔ عبداللہ ؓ نے کہا: یا رسول اللہ! یہی وہ چیز تھی جس سے میں ڈرتا تھا۔
Top