مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4355
وعن عبد الله بن جعفر أن النبي صلى الله عليه وسلم أمهل آل جعفر ثلاثا ثم أتاهم فقال لا تبكوا على أخي بعد اليوم . ثم قال ادعوا لي بني أخي . فجيء بنا كأنا أفرخ فقال ادعوا لي الحلاق فأمره فحلق رؤوسنا . رواه أبو داود والنسائي .
اگر بالوں کی صفائی ستھرائی میں کوئی امر مانع ہو تو سر کو منڈا دینا چاہئے
اور حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت جعفر کی اولاد کو تین دن کی مہلت دی یعنی جب حضرت جعفر طیار ؓ کی شہادت کی خبر آئی تو آپ ﷺ نے ان کے گھر والوں کو تین دن تک رونے دھونے اور سوگ کرنے کی اجازت دی اور اس عرصہ میں آپ ﷺ ان کے ہاں تشریف نہیں لائے، پھر آپ ﷺ (ان لوگوں کو تسلی دلاسہ دینے کے لئے) ان کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ بس آج کے بعد میرے بھائی (جعفر) پر مت رونا۔ پھر فرمایا کہ میرے بھتیجوں (یعنی عبداللہ، عون اور محمد) کو (جو جعفر کے لڑکے ہیں) میرے پاس لے کر آؤ۔ (چنانچہ ہم سب آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر لائے گئے اور اس وقت ہم چوزوں کی طرح یعنی بہت کمسن تھے اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ نائی کو بلا کر میرے پاس لاؤ۔ (جب نائی آگیا تو) آپ ﷺ نے اس کو (ہمارے بال) مونڈنے کا حکم دیا اور اس نے ہمارے سروں کو مونڈا! (ابوداؤد )

تشریح
حضرت جعفر ؓ ابوطالب کے بیٹے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے حقیقی بھائی تھے۔ اس اعتبار سے وہ آنحضرت ﷺ کے چچا زاد بھائی ہوئے۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نوحہ اور جزع فزع کے بغیر میت پر رونا، غمگین و افسردہ ہونا اور رنج و الم کا اظہار کرنا تین دن تک جائز ہے، تین دن کے بعد نہ تو رونا دھونا اور سوگ کرنا جائز ہے اور نہ تعزیت کرنا رواہ ہے۔ حج وعمرہ سے فراغت کے بعد تو سر کو منڈانا افضل ہے لیکن اس کے علاوہ بال رکھنا ہی افضل ہے لیکن اس کے باوجود آنحضرت ﷺ نے حضرت جعفر ؓ کے لڑکوں کے سر مونڈنے کا حکم اس لئے دیا کہ ان کی ماں یعنی اسماء بنت عمیس شوہر کی دائمی جدائی کے سخت ترین صدمہ سے دوچار تھیں، ان کو اپنی اس مصیبت سے اتنی فرصت کہاں ملتی کہ وہ بچوں کے سر کے بالوں کی صفائی ستھرائی اور تیل کنگھے کا خیال رکھتیں اس صورت میں ان کے سروں میں جوئیں وغیرہ پڑجانے کا خدشہ تھا لہٰذا آپ ﷺ نے ان کے بالوں کو منڈوا دینا ہی بہتر سمجھا۔
Top