مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4325
وعن عبد الله بن مسعود قال لعن الله الواشمات والمستوشمات والمتنمصات والمتفلجات للحسن المغيرات خلق الله فجاءته امرأة فقالت إنه بلغني أنك لعنت كيت وكيت فقال ما لي لا ألعن من لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ومن هو في كتاب الله فقالت لقد قرأت ما بين اللوحين فما وجدت فيه ما نقول قال لئن كنت قرأتيه لقد وجدتيه أما قرأت ( ما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا ) ؟ قالت بلى قال فإنه قد نهى عنه .
اللہ کی تخلیق میں تغیر کرنے والا اللہ کی لعنت کا مورد ہے
اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ گودنے والی اور گدوانے والی عورتیں منہ پر سے بال نچوانے والی عورتیں، افزائش حسن کے لئے دانتوں کو سوہان (ریتی) سے رتوانے والی عورتیں ان سب پر کہ جو اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں تغیر کرتی ہیں اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے۔ (جب ابن مسعود ؓ کی یہ روایت عورتوں تک پہنچی) تو ایک عورت حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ آپ اس طرح (کی عورتوں پر) لعنت بھیجتے ہیں؟ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ میرے لئے کیا رکاوٹ ہے کہ میں اس پر لعنت نہ بھیجوں جس پر رسول کریم ﷺ نے لعنت فرمائی ہے اور جس کو کتاب اللہ میں ملعون قرار دیا گیا ہے عورت نے کہا کہ میں نے بھی اس چیز کو پڑھا ہے جو دو دفتیوں کے درمیان ہے (یعنی میں نے بھی پورا قرآن کریم پڑھا ہے) لیکن اس میں مجھے یہ بات جو آپ کہتے ہیں (صریح الفاظ میں) کہیں نہیں ملی ہے؟ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا۔ اگر تم قرآن کریم کو غور و فکر کے ساتھ اور سمجھ کر پڑھتیں تو اس میں تمہیں یقینا اس کا حکم ملتا، کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی ہے (وَمَا اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا) 59۔ الحشر 7) (یعنی رسول کریم ﷺ تمہیں جو کچھ دیں اس کو قبول کرو اور اس پر عمل کرو اور جس چیز سے تمہیں منع کریں اس سے باز رہو) اس عورت نے کہا کہ ہاں یہ آیت تو میں نے پڑھی ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ پس یہ وہ چیز ہے جس سے آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
عورتوں کو اپنے چہرے کے بال چنوانا مکروہ ہے لیکن اگر کسی عورت کو چہرے پر داڑھی یا مونچھ نکل آئے تو اس کو صاف کرنا جائز بلکہ مستحب ہے۔ حدیث میں صرف چنوانے والی کا ذکر ہے۔ چننے والی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے کہ جس کو نامصہ کہتے ہیں جب کہ اس مسئلہ سے متعلق جو روایت دوسری فصل میں آئے گی اس میں نامصہ کا ذکر ہے۔ اہل عرب کے نزدیک عورتوں کے دانتوں میں ایک دوسرے دانت کے درمیان کشادگی و فرق کا ہونا پسندیدہ سمجھا جاتا تھا اور عام طور پر چھوٹی عمر کی عورتوں کے دانت اسی طرح کے ہوتے ہیں، چناچہ عرب میں یہ دستور تھا کہ عورتیں جب بوڑھی ہوجاتی تھیں اور ان کے دانت بڑھ جاتے تھے جس کی وجہ سے ان کے دانتوں کے درمیان یہ کشادگی باقی نہیں رہتی تھی، تو وہ باقاعدہ اپنے دانتوں پر سوہان اور ریتی وغیرہ چلا کر کے دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرتی تھیں اور اس کی بنیاد ان کا یہ جذبہ ہوتا تھا کہ جوان و کمسن نظر آئیں اور حسن و دلکشی ظاہر ہو، چناچہ اسلامی شریعت نے اس طریقہ کو بھی ممنوع قرار دیا۔ لفظ المغیرات تمام مذکورہ عورتوں کی صفت ہے جس کو ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے یعنی جن عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب اس طرح کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز جیسی بنادی ہے اس میں وہ اپنی خواہش کے مطابق ترمیم کرتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مصلحت ومرضی کے خلاف ہے۔ اسی طرح لفظ خلق اللہ مغیرات کا مفعول ہے اور یہ پورا جملہ تعلیل کے درجہ میں ہے جو وجوب لعنت کی علت و وجہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مثلہ اور داڑھی منڈانا وغیرہ میں جو حرمت (ممانعت) ہے اس کی علت و وجہ بھی یہی چیز یعنی اللہ کی تخلیق میں تغیر کرنا ہے، لیکن اس سے یہ ضروری قرار نہیں پاتا کہ ہر تغیر حرام ہو کیونکہ یہ علت کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتی، بلکہ حرمت کی اصل علت تو شرع کی طرف سے منع کیا جانا ہے اور اس ممانعت میں جو حکمت پوشیدہ ہے وہ یہ چیز ہے جس کو ظاہری علت کا درجہ دیا جاتا ہے لہذا حاصل یہ نکلا کہ شارع ( علیہ السلام) نے جن تغیرات کو مباح قرار دیا ہے ان میں اباحت رہے گی اور جن تغیرات کو حرام قرار دیا ہے ان میں حرمت جاری ہوگی مذکورہ عورت نے حضرت ابن مسعود ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ آپ ان عورتوں کو اپنی طرف سے ملعون قرار دیتے ہیں یا اس بات کی اطلاع دیتے ہیں کہ قران کریم میں ان عورتوں کو ملعون قرار دیا گیا ہے حالانکہ قران کریم میں ان عورتوں پر لعنت کا کوئی صریح ذکر نہیں ہے اور یہ مسئلہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے ملعون قرار دیا ہے اس پر لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے؟ چناچہ حضرت ابن مسعود ؓ نے اس عورت کو بڑے اچھے انداز میں بات سمجھائی اور قران و حدیث کے حوالوں سے مسئلہ کو ثابت کیا تو اس کو اطمینان ہوگیا کیونکہ اس کو حدیث کے بارے میں کوئی شبہ تھا ہی نہیں محض اس حکم قران میں بالفاظ صریح نہ ہونے کی وجہ سے اس کے ذہن میں اشکال پیدا ہوا تھا اور وہ بھی رفع ہوگیا روایت کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم دیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ جن امور کی ممانعت بیان فرمائیں ان سے باز رہا جائے اور رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بھی اور دوسری احادیث کے ذریعہ بھی مذکورہ بالا چیزوں سے منع فرمایا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان چیزوں کی ممانعت گویا قرآن میں مذکور ہے۔ طیبی کہتے ہیں کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ مذکورہ عورتوں پر آنحضرت ﷺ کا لعنت فرمانا ایسا ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کو ملعون قرار دیا ہو لہٰذا اس پر عمل کیا جانا واجب ہے۔
Top