مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4262
عن ابن عمر قال : مررت برسول الله صلى الله عليه وسلم وفي إزاري استرخاء فقال : يا عبد الله ارفع إزارك فرفعته ثم قال : زد فزدت فما زلت أتحراها بعد فقال : بعض القوم : إلى أين ؟ قال : إلى أنصاف الساقين . رواه مسلم
ازار کا نصف ساق تک ہونا پسندیدہ ہے
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم ﷺ کے قریب سے گزرا اس وقت میرا تہبند لٹکا ہوا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ! اپنا تہبند اونچا کرو۔ میں نے تھوڑا سا اونچا کرلیا، آپ ﷺ نے فرمایا اور اونچا کرو، میں نے اور اونچا کرلیا پھر حضرت ابن عمر ؓ نے کہا کہ آنحضرت ﷺ اس حکم کے بعد میں برابر عمل (یعنی تہبند کو اونچا کرتے رہنے) کی طرف متوجہ رہتا ہوں، بعض لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ ﷺ اپنے تہبند کو کتنا اونچا رکھتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ آدھی پنڈلیوں تک۔ (مسلم)

تشریح
اتحراھا کی ضمیر اصل میں فعلہ جو مخدوف ہے کی طرف راجع ہے چناچہ ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے لیکن بظاہر صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ضمیر رفعہ اخیرہ کی طرف راجع ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یوں ہوگا کہ میں ہمیشہ اس بات کی طرف متوجہ رہتا ہوں کہ میرا تہبند آنحضرت ﷺ کی منشاء کے مطابق اونچا ہے۔ بہرحال مطلب دونوں صورتوں کا ایک ہی ہے۔
Top