مشکوٰۃ المصابیح - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4248
وعن عمران بن حصين أن نبي الله صلى الله عليه وسلم قال : لا أركب الأرجوان ولا ألبس المعصفر ولا ألبس القميص المكفف بالحرير وقال : ألا وطيب الرجال ريح لا لون له وطيب النساء لون لا ريح له . رواه أبو داود
خوشبو کا مسئلہ
اور حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ میں ارغوانی یعنی سرخ رنگ ازین پوش پر سوار نہیں ہوتا نہ میں کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہنتا ہوں اور نہ میں ایسا پیرہن (کرتا وغیرہ) پہنتا ہوں جس پر ریشمی سنجاف (یعنی ریشمی گوٹ و بیل وغیرہ) لگی ہو۔ اور پھر فرمایا یاد رکھو! مرد جو خوشبو لگائیں وہ ایسی ہونی چاہئے جس میں مہک تو ہو رنگ نہ ہو جیسے گلاب اور عطر وغیرہ تاکہ رنگ دار خوشبو لگانے سے کپڑے رنگین نہ ہوجائیں اور عورتیں جو خوشبو لگائیں وہ ایسی ہونی چاہئے جس میں رنگ تو ہو مہک نہ ہو جیسے زعفران و مہندی وغیرہ تاکہ ان کی مہک باہر نکل کر مردوں کے لئے فتنہ و ابتلاء کا سبب نہ بن جائے۔ (ابو داؤد)

تشریح
ارجوان (الف و جیم کے پیش اور راء کے سکون کے ساتھ) کے معنی ہیں سرخ رنگ کی ریشمی پوش مطلب یہ ہے کہ میں سواری کے کسی ایسے جانور پر نہیں بیٹھتا جس کی زین (پالان) کے اوپر سرخ ریشمی کپڑا پڑا ہو اور نہایہ میں یہ لکھا ہے کہ ارجوان اصل میں ارغوان کا معرب ہے اور ارغوان اس درخت کو کہتے ہیں اور قاموس میں یہ لکھا ہے کہ ارجوان سرخ رنگ کو کہتے ہیں بہرحال ملا علی قاری کے مطابق حدیث میں ارجوان سے مراد سرخ رنگ کا کپڑا ہے خواہ وہ ریشمی ہو یا غیر ریشمی اور گویا یہ ارشاد گرامی اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس حکم کو زیادہ سے زیادہ تاکید کے ساتھ واضح کر رہا ہے کہ مردوں کو سرخ رنگ کا لباس پہننے سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ اگرچہ سوار ہونے پر پہننے کا اطلاق نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود أنحضرت ﷺ جب رنگ کے زین پوش پر سوار ہونے سے اجتناب کرتے تھے تو سرخ رنگ کا کپڑا پہننے سے تو آپ ﷺ بطریق اولی اجتناب کرتے ہوں گے اور نہ میں ایسا پیرہن پہنتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ کا مطلب یہ ہے کہ میں ایسا کرتا یا جبہ نہیں پہنتا جس میں ریشمی سنجاف چار انگشت سے زیادہ ہو یا یہ کہ یہ ارشاد گرامی تقویٰ اور احتیاط پر محمول ہے۔ جس میں رنگ تو ہو مہک نہ ہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو اپنے گھر سے باہر نکلتے وقت ایسی کوئی چیز استعمال کرنی درست نہیں ہے جس میں مہک اور خوشبو ہو ہاں۔۔۔۔۔۔ گھر کے اندر رہتے ہوئے اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ حدیث میں خوشبو کے سلسلے میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا ظاہری اسلوب بیان خبر کا ہے لیکن معنی میں امر یعنی حکم کے ہے جس کا مطلب یہ ہے جیسا کہ ترجمہ میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ مرد جو خوشبو استعمال کریں اس میں رنگ کی آمیزش نہ ہونی چاہئے، اس کے برخلاف عورت جو خوشبو استعمال کرے اس میں مہک نہ ہونی چاہئے، اسی طرح شمائل ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ مردوں کی خوشبو ایسی چیز ہونی چاہئے جس سے مہک تو نکلتی ہو لیکن اس کا رنگ ظاہر نہ ہو اور عورتوں کی خوشبو ایسی چیز ہونی چاہئے جس کا رنگ تو ظاہر ہو لیکن اس سے مہک نہ نکلتی ہو۔ اس روایت کا مطلب بھی وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے کہ عورت گھر سے باہر نکلتے وقت کوئی ایسی چیز استعمال نہ کرے جس کی مہک پھیلتی ہو کیونکہ اگر یہ مطلب نہ لیا جائے تو عبارت کا مفہوم اس لئے غیر واضح ہوجائے گا کہ کوئی بھی خوشبو بغیر مہک کے نہیں ہوسکتی اس صورت میں اس کی طرف مہک کی نسبت غیر ضروری اور بےفائدہ ہوگی اور اگر یہ کہا جائے کہ کچھ خوشبوئیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں بالکل مہک نہیں ہوتی اور عورتوں کے لئے ایسی ہی خوشبوؤں کا استعمال جائز کیا گیا ہے تو یہ بات بالکل غیر حقیقی اور غیر صحیح ہوگی۔
Top