صحيح البخاری - لباس کا بیان - حدیث نمبر 4234
وعن عبد الرحمن بن عوف قال : عممني رسول الله صلى الله عليه وسلم فسدلها بين يدي ومن خلفي . رواه أبو داود
پگڑی کے شملہ کا مسئلہ
اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ نے مجھ کو عمامہ بندھوایا تو اس کا شملہ میرے آگے اور میرے پیچھے (دونوں طرف) لٹکایا۔ (ابوداؤد)

تشریح
یعنی آپ ﷺ پگڑی کے دونوں سروں کا شملہ چھوڑ کر ایک کو سینہ اور دوسرے کو پیٹھ پر لٹکایا۔ واضح رہے کہ عمامہ باندھنا سنت ہے اور اس کی فضیلت میں بہت زیادہ حدیثیں منقول ہیں، بلکہ ایک روایت میں جو اگرچہ ضعیف ہے یہاں تک منقول ہے کہ عمامہ باندھ کر پڑھی جانے والی دو رکعتیں بغیر عمامہ کے پڑھی جانے والی ستر رکعتوں سے افضل ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ عمامہ میں شملہ چھوڑنا افضل ہے لیکن دائمی طور پر نہیں چناچہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ ﷺ کبھی تو شملہ چھوڑتے تھے اور کبھی نہیں چھوڑتے تھے، اسی طرح بعض دفعہ آپ ﷺ کے عمامہ کا شملہ آپ ﷺ کی گردن سے نیچے تک لٹکا ہوتا تھا اور بعض دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ عمامہ کا ایک سرا عمامہ ہی میں اڑس دیتے تھے اور دوسرا چھوڑ دیتے تھے نیز آپ ﷺ کے عمامہ کا شملہ اکثر اوقات میں پیٹھ پر پڑا ہوتا تھا اور کبھی کبھی دائیں طرف بھی لٹکا لیتے تھے اور کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ عمامہ کے دونوں سروں کا شملہ چھوڑ کر دونوں مونڈھوں کے درمیان یعنی ایک کو سینے پر اور دوسرے کو پیٹھ پر لٹکا لیتے تھے لیکن بائیں طرف لٹکانا چونکہ ثابت نہیں ہے اس لئے بدعت ہے اور کنز میں لکھا ہے کہ شملہ کو مونڈھوں کے درمیان چھوڑنا مستحب ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے شملہ کی لمبائی کم سے کم ایک بالشت اور زیادہ سے زیادہ ہاتھ بھر ہونی چاہئے اس سے زائد لمبا شملہ چھوڑنا بدعت ہے اور اس کے خلاف ورزی ہے جس کے ذریعہ اسبال و اسرف سے منع کیا گیا ہے چناچہ مقررہ حد سے زائد لمبائی اگر غرور وتکبر کے طور پر ہوگی تو وہ حرام شمار ہوگی ورنہ مکروہ اور خلاف سنت! نیز محمد ثین نے یہ لکھا ہے کہ شملہ چھوڑنے کو صرف نماز کے وقت کے ساتھ مختص کرنا بھی سنت کے خلاف ہے۔ یہ ملحوظ رہے کہ شملہ چھوڑنا فقہی اعتبار سے مستحب ہے جس کا تعلق سنت زائدہ سے ہے سنت ہدی سے نہیں اس لئے اس (شملہ چھوڑنے) کے ترک میں کوئی گناہ یا برائی نہیں ہے اگرچہ اس کو اختیار کرنے میں ثواب و فضیلت ہے، جن حضرات نے شملہ چھوڑنے کو سنت مؤ کدہ کہا ہے ان کا یہ قول ہے تحقیق و روایت کے خلاف ہے۔
Top