مشکوٰۃ المصابیح - گری پڑی چیز اٹھانے کا بیان - حدیث نمبر 3060
عن زيد بن خالد قال : جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فسأله عن اللقطة فقال : اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها . قال : فضالة الغنم ؟ قال : هي لك أو لأخيك أو للذئب قال : فضالة الإبل ؟ قال : مالك ولها ؟ معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها . متفق عليه . وفي رواية لمسلم : فقال : عرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إليه
کوئی شخص گری پڑی چیز پائے تو وہ کیا ہے؟
حضرت زید بن خالد کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے آپ ﷺ سے لقطہ کے بارے میں پوچھا (کہ اگر کوئی گری پڑی چیز پائی جائے تو کیا کیا جائے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے تو اس کا ظرف پہچان لو یعنی اگر وہ چیز کسی کپڑے یا چمڑے کے تھیلے وغیرہ میں ہے تو اسے شناخت میں رکھو) اور اس کا سر بند بھی پہچانے رہو پھر ایک سال تک اس کی تشہیر کرو ایک سال کی مدت میں اگر اس کا مالک آجائے تو وہ چیز اس کے حوالہ کردو اور اگر وہ نہ آئے تو پھر اسے اپنے استعمال میں لے آؤ۔ پھر اس شخص نے گمشدہ بکری کے بارے میں پوچھا کہ اگر کسی کی گم شدہ بکری کوئی شخص پکڑ لائے تو اس کا کیا کرے) آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی ہے اور یا بھیڑئیے کی ہے اس کے بعد اس شخص نے پوچھا کہ گمشدہ اونٹ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں اس سے کیا مطلب ہے ( یعنی اسے نہ پکڑو کیونکہ وہ ضائع ہونیوالی چیز نہیں ہے اس لئے اس کو پکڑ کر لانے کی ضرورت نہیں) اس کی مشک اور اس کے موزے اس کے ساتھ ہیں کہ وہ جب تک اپنے مالک کے پاس نہ پہنچے پانی تک جاسکتا ہے اور درخت کے پتے کھا سکتا ہے۔ (بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ جب اس شخص نے لقطہ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کی تشہیر کرو اور اس کا سر بند اور ظرف تھیلا وغیرہ پہچانے رکھو (اس مدت تشہیر میں اگر اس کا مالک نہ آئے) تو پھر اسے اپنے استعمال میں لے آؤ اور اگر اس کے بعد اس کا مالک آجائے تو اس کی وہ چیز بشرطیکہ تمہارے پاس جوں کی توں موجود ہو) دیدو اور نہ اس کی قیمت ادا کردو۔

تشریح
ابن مالک کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اس چیز کا ظرف اور سربند پہچان لینے کا حکم اس لئے دیا تاکہ جو شخص اس چیز کی ملکیت کا دعوی کرے اس پہچان کی وجہ سے اس کا سچا یا جھوٹا ہونا معلوم ہوجائے۔ لیکن اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ اگر کوئی شخص لقطہ اٹھانے والے کے پاس آئے اور اپنا ظرف اور اس کا سربند پہچان کر اس لقطہ کے مالک ہونے کا دعوی کرے تو وہ لقطہ اسے دے دینا واجب ہے یا نہیں؟ چناچہ امام مالک اور امام احمد تو یہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں وہ لقطہ اسے کسی گواہی کے بغیر ہی دے دینا واجب ہے کیونکہ ظرف اور اس کے سربند کی پہچان رکھنے کا یہی مقصد ہے لیکن امام شافعی اور حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص لقطہ کا ظرف اور اس کا سربند پہچان لے اور اس لقطہ کا وزن یا عدد بتادے نیز لقطہ اٹھانے والے کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے کہ یہ شخص سچا ہے تب وہ لقطہ اس شخص کو دے دینا جائز تو ہے لیکن وہ شخص گواہوں کے بغیر لقطہ اٹھانے والے کو دینے پر مجبور نہیں کرسکتا۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ ظرف اور سربند کی پہچان رکھنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کی وجہ سے وہ لقطہ اٹھانے والے کے مال میں اس طرح خلط ملط نہیں ہوجائے گا کہ جب لقطہ کا مالک آئے تو وہ اپنے مال و اسباب اور اس لقطہ کے درمیان امتیاز نہ کرسکے۔ ثم عرفہا (پھر اس کی تشہیر کرو) کا مطلب یہ ہے کہ جس جگہ وہ لقطہ پایا گیا ہے نہ صرف وہاں بلکہ بازاروں اور مسجدوں میں اور فلاں کے پاس پہنچ کر اس چیز کی تفصیل و علامات بیان کر کے لے جائے۔ مدت تشہیر کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک حضرت امام احمد اور حنفیہ میں سے حضرت امام محمد تو حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے لئے ایک سال کی مدت متعین ہے یعنی لقطہ کی ایک سال تک تشہیر کرانی چاہئے، لیکن صحیح تر روایت کے مطابق حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام ابویوسف کا قول یہ ہے کہ مدت متعین کی کوئی قید نہیں ہے بلکہ حدیث میں ایک سال کا ذکر باعتبار غالب کے بر سبیل اتفاق ہے۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حدیث میں ایک سال کی مدت اگر اتفاقی طور پر ذکر کی گئی ہے۔ اور متعین طور پر مذکور نہیں ہے تو پھر تشہیر کی کیا مدت متعین کی جائے؟ اس کی وضاحت ہدایہ نے امام ابوحنیفہ کی ایک روایت کے مطابق یوں کی ہے کہ اگر لقطہ دس درہم سے کم قیمت کا ہو تو اس کی تشہیر چند دن تک کرنا کافی ہے اگر دس درہم کی مالیت کا ہو تو ایک مہینہ تک تشہیر کی جائے اور وہ سو درہم کی مالیت کا ہو پھر ایک سال تک تشہیر کی جائے۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ مالیت کی مذکورہ بالا مقدار کی جو مختلف مدتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے لازم کوئی بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ لقطہ اٹھانے والے کی رائے پر موقوف ہے کہ کہ وہ لقطہ کیا اس وقت کی تشہیر کرے جب تک کہ اسے یہ غالب گمان نہ ہوجائے کہ اب کوئی نہیں آئگا اور اس مدت کے بعد اس لقطہ کو طلب نہیں کرے گا۔ ان علماء کی دلیل مسلم کی وہ روایت ہے کہ جس میں لفظ سنۃ ایک سال کی قید کے بغیر صرف عرفہا اس کی تشہیر کی جائے) منقول ہے۔ لقطہ اگر کسی چیز کی صورت میں ہو جو زیادہ دنوں تک نہ ٹہہر سکتی ہو اور موسمی حالات کے تغیر و تبدل سے متاثر ہوتی ہو جیسے کھانے کی کوئی چیز یا پھل وغیرہ تو اس کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اس تشہیر اسی وقت تک کی جائے جب تک کہ وہ خراب نہ ہو اور اگر لقطہ کوئی بہت ہی حقیر و کمتر چیز ہو جیسے گٹھلی اور انار کا چھلکا وغیرہ تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کی تشہیر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اسے بغیر تشہیر و اعلان استعمال کرلینے کی اجازت ہے مگر اس کے مالک کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اگر وہ چاہے تو اپنی اس چیز کا مطالبہ کرے۔ (فان جاء صاحبہا والا فشانک بہا) کا مطلب یہ ہے کہ لقطہ کی تشہیر کے بعد اگر اس کا مالک آجائے تو اسے وہ لقطہ دیدیا جائے اگر اس مالک کے ساتھ گواہ بھی ہوں جو اس کے دعوی کی ملکیت کی گواہی دیں تو لقطہ اٹھانے والے پر یہ واجب ہوگا کہ وہ اسے لقطہ دیدے اور اگر گواہ نہ ہوں گے تو پھر دے دینا واجب نہیں جائز ہوگا جیسا کہ اوپر اس کی وضاحت کی گئی۔ اور اگر مدت تشہیر گزر جانے کے بعد اس لقطہ کا مالک نہ آئے تو پھر لقطہ اٹھانے والا اس لقطہ کو اپنے استعمال میں لے آئے۔ اس سے گویا یہ معلوم ہوا کہ لقطہ اٹھانے والا اصل مالک کے نہ آنے کی صورت میں اس لقطہ کا خود مالک بن جاتا ہے خواہ وہ مالدار ہو یا مفلس ہو چناچہ اکثر صحابہ اور حضرت امام شافعی کا یہی مسلک ہے لیکن بعض صحابہ کا قول یہ ہے کہ اگر لقطہ اٹھانے والا خود مالدار ہو تو وہ اس لقطہ کا مالک نہیں بنتا بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اس لقطہ کو فقراء و مساکین کو بطور صدقہ دیدے چناچہ حضرت ابن عباس سفیان ثوری ابن المبارک اور حنفیہ کا یہی قول ہے نیز اس بارے میں یہ بھی حکم ہے کہ اگر صدقہ کردینے کے بعد مالک آئے تو اسے یہ اختیار ہوگا کہ چاہے تو وہ اس صدقہ کو برقرار رکھے اور اس کے ثواب کا حصہ دار بن جائے اور چاہے تو لقطہ اٹھانے والے یا اس مفلس سے کہ جس کو وہ لقطہ بطور صدقہ دے دیا گیا تھا تاوان لے لے بشرطیکہ وہ چیز ہلاک وضائع ہوگئی ہو۔ لیکن ان دونوں میں سے جو بھی تاوان دے گا وہ دوسرے سے کوئی مطالبہ نہیں کرسکتا یعنی اگر لقطہ اٹھانے والے نے تاوان دیا تو اسے مفلس سے کوئی مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہوگا اور اگر مفلس سے تاوان لیا تو وہ لقطہ اٹھانے والے سے کوئی مطالبہ نہیں کرسکتا ہاں اگر وہ لقطہ ہلاک وضائع نہ ہوا ہو بلکہ جوں کا توں موجود ہو تو وہی لے لے گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ مالک کو تاوان لینے کا حق اسی صورت میں پہنچے گا جب کہ وہ لقطہ ہلاک وضائع ہوگیا ہو اور اگر وہ ہلاک وضائع نہ ہوا ہو تو پھر وہی لینا ہوگا۔ شرح وقایہ کے بعض حاشیوں میں نہایہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ تشہیر کے بعد لقطہ کو صدقہ کردینا جائز ہے لیکن اسے رکھ چھوڑنا عزیمت ہے۔ ہی لک (وہ تمہاری ہے) کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بکری بطور لقطہ تم نے پکڑی اور پھر تم نے اس کی تشہیر کی جس کے نتیجہ میں اس کا مالک آگیا تو وہ تم سے لے لے گا لیکن اگر تشہیر کے بعد مالک نہ آیا تو پھر وہ بکری تمہاری ہوجائے گی تم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو اسی طرح (ولاخیک الا) الخ یا تمہارے بھائی کی ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے وہ بکری پکڑی لی اور اس کا مالک آگیا تو وہ اسے لے لے گا اور اگر تم نے نہ پکڑی اور مالک کے ہاتھ لگ گئی تب بھی وہ لے لے گا یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے وہ بکری نہ پکڑی تو تمہارے بجائے کوئی اور تمہارا مسلمان بھائی اسے پکڑ لے گا اور اگر ان میں سے کوئی بھی صورت نہ ہوئی تو پھر بھیڑیا اس بکری کو پکڑ لے گا گویا اس ارشاد کا مقصد اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ اگر کوئی بکری بطور لقطہ ملے تو اسے پکڑ لینا اور مالک کے نہ آنے کی صورت میں اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے تاکہ وہ بکری یوں ہی ضائع نہ ہو اور بھیڑیا وغیرہ اسے نہ کھالے۔ یہی حکم ہر اس جانور کے بارے میں ہے جو اپنے نگہبان یعنی چرانے والے کی عدم موجودگی میں بھیڑئیے کی گرفت میں جانے سے محفوظ نہ رہ سکتا ہو۔ اونٹ کی مشک سے مراد اس کا پیٹ ہے یعنی اونٹ کا پیٹ مشک کی طرح ہوتا ہے جس میں اتنی رطوبت رہتی ہے جو اس کو بہت دنوں تک بغیر پانی کے رکھ سکتی ہے چناچہ اونٹ کئی روز تک پیاس کو برداشت کرلیتا ہے جب کہ دوسرے جانوروں میں یہ چیز نہیں ہوتی۔ اس بارے میں مشہور ہے کہ اونٹ پندرہ روز تک اپنی پیاس برداشت کرلیتا ہے۔ اونٹ کے موزے، سے مراد اس کے مضبوط و قوی تلوے ہیں کہ وہ راہ چلنے اور پانی گھاس تک پہنچنے اور درندوں سے اپنے آپ کو بچانے کی خوب طاقت رکھتا ہے۔ گویا اس ارشاد گرامی میں مشک اور موزے کے ذریعہ اونٹ کو اس مسافر سے تشبیہ دی گئی ہے جو اپنے ساتھ سامان سفر رکھتا ہے جس کی موجودگی میں اسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس معاملہ میں ہر جانور اونٹ کے حکم میں ہے جو اپنے نگہبان یعنی چرواہے کی عدم موجودگی میں بھیڑئیے وغیرہ کے چنگل میں پھنس کر ضائع و ہلاک نہیں ہوتا جیسے گھوڑا گائے اور گدھا وغیرہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک نے اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ جنگل میں اونٹ اور گائے وغیرہ بطور لقطہ نہیں پکڑے جاسکتے کیونکہ وہاں ان کے ضائع ہوجانے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا۔ البتہ دیہات اور شہروں میں اگر یہ جانور ملیں تو انہیں بطور لقطہ نہیں پکڑے جاسکتے کیونکہ وہاں ان کے ضائع ہوجانے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا البتہ دیہات اور شہروں میں اگر یہ جانور ملیں تو انہیں بطور لقطہ پکڑنا جائز ہے۔ حنفیہ کے ہاں تمام جانوروں کا التقاط اور تعریف یعنی انہیں بطور لقطہ پکڑنا اور اس کی تشہیر کرنا) لوگوں کے مال کی حفاظت کے پیش نظر ہر جگہ مستحب ہے خواہ جنگل ہو یا آبادی حضرت زید کی اس روایت کے بارے میں حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ اس میں مذکورہ حکم کہ اونٹ کو پکڑنے کی ضرورت نہیں ہے اس زمانہ میں تھا جب کہ امانتدار اور خیر و بھلائی کے حامل لوگوں ہی غلبہ تھا جس کی وجہ سے اگر کسی کا جانور کوئی نہ پکڑتا تھا تو کسی خائن کا ہاتھ ان تک نہیں پہنچتا تھا لیکن اب اس زمانہ میں یہ بات مفقود ہے اور امانت ودیانت کے حامل لوگ بہت ہی کم ہیں اس لئے مخلوق اللہ کے مال کی حفاظت کا تقاضا یہی ہے کہ جو جانور جہاں مل جائے اسے بطور لقطہ پکڑ لایا جائے اور اس مالک تک پہنچانے کی کوشش کی جائے۔
Top