مشکوٰۃ المصابیح - گرہن کے متعلق احادیث کی کتاب - حدیث نمبر 1464
وَعَنْ عِکْرِمَۃَ قَالَ قِیْلَ لابْنِ عَبَّاسٍ مَا تَتْ فُلَا نَۃُ بَعْضُ اَزْوَاجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَخَرَّ سَاجِدًا فَقِیْلَ لَہ، تَسْجُدُ فِیْ ھٰذِہِ السَّاعَۃِ فَقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا رَاَیْتُمْ اٰیَۃً فَاسْجُدُوْاوَاَیُّ اٰیَۃٍ اَعْظَمُ مِنْ ذِھَابِ اَزْوَاجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم (رواہ ابوداؤد و الترمذی)
کرشمہ خداوندی کے ظہور کے وقت سجدہ
اور حضرت عکرمہ ؓ راوی ہیں کہ (جب) حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے یہ کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے فلاں زوجہ مطہرۃ (یعنی حضرت صفیہ ؓ انتقال فرما گئیں (تو) وہ (اس عظیم حادثہ کی خبر سنتے ہی) سجدہ میں گرپڑے ( یا یہ کہ انہوں نے نماز پڑھی) ان سے پوچھا گیا آپ اس وقت سجدہ (کیوں) کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ جب تم کوئی نشانی (یعنی کرشمہ خداوندی) دیکھو تو سجدہ کرو اور رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کی دائمی جدائی سے زیادہ بڑی نشانی اور کیا ہوسکتی ہے؟ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد)

تشریح
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے لوگوں کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ اس وقت بلا سبب سجدہ کیوں کرتے ہیں جب کہ بلاوجہ سجدہ کرنا ممنوع ہے؟ اس کا جواب انہوں نے دیا کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تم بلاؤں اور مصیبتوں کے آنے کی صورت میں اللہ کے کرشموں میں سے جن کہ ذریعہ اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے کوئی کرشمہ دیکھو تو بارگاہ الٰہی میں فوراً سجدہ ریز ہوجاؤ اور ظاہر ہے کہ اللہ کا کون سا کرشمہ اس سے زیادہ ڈرانے والا عظیم اور سخت تر ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات اس دنیا سے رخصت ہوجائیں، کیونکہ ان مقدس ماؤں کو رسول اللہ ﷺ کی زوجیت میں ہونے اور آپ ﷺ سے انتہائی ارتباط و اختلاط کی وجہ سے جو عظمت و فضیلت حاصل تھی دوسروں کو حاصل نہیں تھی۔ لہٰذا جس طرح ان کی حیات دنیا اور دنیا والوں کے لئے امن و برکت کے سبب کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوجانے کے خوف کا باعث ہے اس لئے ان کی برکت کے منقطع ہوجانے کے وقت اللہ کی یاد میں مشغول اور بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوجانا ہی بہتر ہے کہ اللہ کے ذکر اور سجدہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ کا عذاب دفع ہوجائے۔ علماء لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد فاسجدوا (سجدہ کرو) کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھو جب کہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس ارشاد سے صرف سجدہ کرنا ہی مراد ہے۔ علامہ طیبی (رح) فرماتے ہیں کہ ارشاد نبوی میں لفظ آیۃ مطلق ہے اس لئے اس کو اگر چاند و سورج گرہن پر محمول کیا جائے تو سجدہ سے نماز مراد ہوگی اگر اس کے علاوہ دوسری نشانیوں مثلاً طوفان آندھی یا زلزلہ وغیرہ پر اطلاق کیا جائے تو پھر سجدہ سے سجدہ ہی مراد ہوگا اگرچہ اس صورت میں بھی نماز مراد لی جاسکتی ہے کیونکہ یہ منقول ہے کہ جب ایسی کوئی صورت پیش آتی تو رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگئے تھے۔ حضرت ابن ہمام (رح) فرماتے ہیں کہ یہ منقول ہے کہ سخت طوفان، آندھی اور ظلمت چھا جانے کے وقت نماز پڑھنا ہی اچھا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کے بارے میں بھی مروی ہے کہ انہوں نے بصرہ میں زلزلہ کے وقت نماز پڑھی تھی۔
Top