مشکوٰۃ المصابیح - گرہن کے متعلق احادیث کی کتاب - حدیث نمبر 1458
گرہن کے وقت آنحضرت ﷺ کی کیفیت
اور حضرت ابوموسی ؓ فرماتے ہیں کہ (جب) سورج گرہن ہو تو رسول اللہ ﷺ گھبرائے ہوئے کھڑے ہوگئے اور آپ ﷺ پر ایسا خوف طاری ہوا جیسے قیامت ہوگئی ہو۔ چناچہ آپ ﷺ مسجد میں تشریف لائے اور طویل قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی میں نے اس طرح کبھی آپ ﷺ کو (اتنا طویل قیام و رکوع اور سجود) کرے ہوئے نہیں دیکھا پھر آپ ﷺ نے فرمایا یہ نشانیاں جو اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ نہ تو کسی کے مرنے کے سبب سے ( ظاہر ہوتی) ہیں اور نہ کسی کی پیدائش کی وجہ سے، ہاں اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، لہٰذا جب تم ان نشانیوں میں سے کوئی نشانی دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کا ذکر کرنے، اس سے دعا مانگنے اور استغفار کرنے میں مصروف ہوجاؤ۔ (صحیح مسلم صحیح البخاری

تشریح
الفاظ یخشی ان تکون الساعۃ دراصل راوی نے بطریق تمثیل استعمال کئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس موقع پر اس طرح گھبرائے ہوئے اور خوف زدہ تھے جیسا کہ کوئی آدمی قیامت شروع ہوجانے پر گھبرا جائے اور خوف زدہ ہوجائے۔ آپ ﷺ کا یہ خوف اس وجہ سے نہیں تھا کہ آپ ﷺ یہ سمجھے ہوں کہ قیامت شروع ہوگئی ہے چونکہ آپ ﷺ پوری طرح جانتے تھے کہ جب تک کہ میں لوگوں میں موجود ہوں قیامت نہیں آسکتی۔ بہر حال، رسول اللہ ﷺ اللہ کی نشانیوں کے ظہور مثلاً سورج و چاند گرہن، زلزے، آندھی و طوفان اور چمک و کڑک کے وقت جو گھبراتے اور ڈرتے تھے تو اس میں صرف زمین کے اوپر بسنے والے انسانوں کی شفقت کا جذبہ کار فرما تھا چناچہ آپ ﷺ اپنی ذات کی طرف سے نہیں بلکہ دنیا والوں کی طرف سے خوف زدہ ہوجایا کرتے تھے کہ کہیں یہ اپنے دامن میں دنیا والوں کی تباہی و بربادی کا پیغام نہ لئے ہو اور اس صورت میں لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل نہ ہوجائے۔ وقال ھذہ الا یات کا مطلب یہ ہے کہ چاند و سورج گرہن ہونا، زلزلوں اور آندھی اور طوفانوں کا آنا اور بجلی کی کڑک وغیرہ یہ سب اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور انسانوں کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ دیکھو میں تغیر حالت، قسمت کے چھین لینے اور عذاب نازل کرنے پر کیسا قادر ہوں؟
Top