مشکوٰۃ المصابیح - گرہن کے متعلق احادیث کی کتاب - حدیث نمبر 1456
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ انْخَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَصَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالنَّاسُ مَعَہُ فَقَامَ قِےَامًا طَوِےْلًا نَّحْوًا مِّنْ قِرَآءَ ِۃ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ ثُمَّ رَکَعَ رُکُوْعًا طَوِےْلًا ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِےَامًا طَوِےْلًا وَھُوَ دُوْنَ الْقِےَامِ الْاَوَّلِ ثُمَّ رَکَعَ رُکُوْعًا طَوِےْلًا وَھُوَ دُوْنَ الرَّکُوْعِ الْاَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ فَقَامَ قِےَامًا طَوِےْلًا وَّھُوَ دُوْنَ الْقِےَامِ الْاَوَّلِ ثُمَّ رَکَعَ رُکُوْعًا طَوِےْلًا وَھُوَ دُوْنَ الرُّکُوْعِ الْاَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِیَامًا طَوِیْلًا وَہُوَ دُوْنَ الْقِیَامِ الْاَوَّلِ ثُمَّ رَکَعَ رُکُوْعاً طَوِیْلاًوَہُوَ دُوْنَ الرَّکُوْعِ الْاَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ فَقَالَ اِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ اٰےَتَانِ مِنْ اٰےَاتِ اللّٰہِ لاَ ےَخْسِفَانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَےٰوتِہٖ فَاِذَا رََاَےْتُمْ ذَالِکَ فَاذْکُرُواللّٰہَ قَالُوْا ےَارَسُوْلَ اللّٰہِ رَاَےْنَاکَ تَنَاوَلْتَ شَےْئًا فِیْ مَقَامِکَ ھٰذَا ثُمَّ رَاَےْنَاکَ تَکَعْکَعْتَ فَقَالَ اِنِّیْ رَاَےْتُ الْجَنَّۃَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْھَا عُنْقُوْدًا وَلَوْ اَخَذْتُہُ لَاَکَلْتُمْ مِنْہُ مَا بَقِےَتِ الدُّنْےَا وَرَاَےْتُ النَّارَ فَلَمْ اَرَ کَالْےَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ اَفْظَعَ وَرَاَےْتُ اَکْثَرَ اَھْلِھَا النِّسَآءَ فَقَالُوْا بِمَ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُفْرِھِنَّ قِےْلَ ےَکْفُرْنَ بِاللّٰہِ قَالَ ےَکْفُرْنَ الْعَشِےْرَ وَےَکْفُرْنَ الْاِحْسَانَ لَوْ اَحْسَنْتَ اِلٰی اِحْدَاھُنَّ الدَّھْرَ ثُمَّ رَاَتْ مِنْکَ شَےْئًا قَالَتْ مَا رَاَےْتُ مِنْکَ خَےْرًا قَطُّ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم )
سورج گرہن کا حقیقی سبب
اور حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن ہوا، آپ ﷺ نے لوگوں کے ساتھ ( اس طرح) نماز پڑھی کہ سورت بقرہ کی قرأت کی بقدر طویل قیام فرمایا (یعنی اتنی دیر تک قیام میں کھڑے رہے جتنی دیر تک سورت بقرہ پڑھی جاسکتی ہے) پھر آپ ﷺ نے رکوع کیا، رکوع بھی اتنا طویل تھا، رکوع سے سر اٹھایا اور بڑی دیر تک کھڑے رہے لیکن یہ قیام پہلے قیام سے کم تھا، پھر (دوبارہ) رکوع کیا، یہ رکوع بھی طویل تھا مگر پہلے رکوع سے کم، پھر کھڑے ہوئے اور سجدہ کیا، پھر (دوسری رکعت کے لئے) کھڑے ہوئے اور بہت طویل قیام کیا مگر یہ قیام پہلی رکعت کے قیام سے کم تھا، پھر رکوع میں گئے یہ رکوع بھی طویل تھا مگر پہلے رکوع سے کم، پھر کھڑے اور دیر تک کھڑے رہے مگر یہ قیام پہلے قیام سے کم تھا، پھر رکوع میں گئے یہ رکوع بھی طویل تھا مگر پہلے رکوع سے کم پھر کھڑے ہوئے اور سجدہ کیا اس کے بعد (یعنی التحیات اور سلام کے بعد) نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہوچکا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا سورج اور چاند اللہ کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں! یہ نہ کسی مرنے کی وجہ سے گرہن ہوتے ہیں اور نہ کسی کے پیدا ہونے کی وجہ سے جب تم یہ دیکھو کہ (یہ گرہن میں آگئے ہیں) تو اللہ کی یاد میں مشغول ہوجاؤ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ( نماز کے دوران) ہم نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنی جگہ سے کسی چیز کو لینے کا ارادہ کیا پھر ہم نے آپ ﷺ کو پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا (جب تم نے مجھے کسی چیز کے لینے کیلئے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا تھا تو اس وقت) میں نے جنت کو دیکھا تھا اور اس میں سے خوشہ انگور لینے کا ارادہ کیا تھا، اگر میں خوشہ انگور لے لیتا تو بلا شبہ تم اسے رہتی دنیا تک کھاتے اور جب تم نے مجھے پیچھے ہٹے ہوئے دیکھا تھا (اس وقت) میں نے دوزخ دیکھی تھی (اس کی گرمی کے پہنچنے کے ڈر سے پیچھے ہٹ گیا تھا) چناچہ آج کے دن کی طرح کسی دن میں نے ایسی ہو لناک جگہ کبھی نہیں دیکھی اور دوزخ میں میں نے زیادہ عورتیں ہی دیکھی ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کس وجہ سے؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ان کے کفر کی وجہ سے صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا عورتیں اللہ کے کفر میں مبتلا ہیں۔؟ فرمایا نہیں بلکہ وہ شوہروں کی نعمتوں اور احسان کا کفران کرتی ہیں (یعنی شوہروں کی ناشکر و نافرمائی کرتی ہیں اور کسی کا احسان نہیں مانتیں) چناچہ تم ان میں سے کسی کے ساتھ مدتوں تک بھلائی کرتے رہو مگر جب کبھی وہ کسی چیز کو اپنی مرضی کے خلاف پائے گی تو یہی کہے گئے کہ میں نے کبھی تمہارے یہاں بھلائی نہیں دیکھی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
آیتان من ایت اللہ کا مطلب یہ ہے کہ سورج و چاند اللہ کی الوہیت اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے اس بات کی دو نشانیاں ہیں کہ یہ دونوں رب قدوس کے تابعدار اور فرمانبردار پیدا کئے گئے ہیں انہیں اپنی طرف سے کسی کو نفع و نقصان پہنچانے کی قدرت تو کیا ہوتی ہے ان میں اتنی بھی طاقت نہیں ہے کہ اپنے اندر کسی قسم کے پیدا ہوئے نقصان اور عیب کو ختم کرسکیں۔ لہٰذا کیسے بد عقل و کند فہم اور کور بخت ہیں وہ لوگ جو اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہوئے چاند و سورج کو معبود قرار دیتے ہیں ان کے سامنے اپنی پیشانی جھکاتے ہیں؟ اس کے بعد آپ ﷺ نے اہل جاہلیت کے اس عقیدہ کو ختم فرمایا کہ کس عظیم حادثہ مثلاً کسی بڑی آدمییت کے مرنے اور وباء عام یعنی قحط وغیرہ کی وجہ سے سورج و چاند گرہن میں آتے ہیں، چناچہ آپ ﷺ نے آگاہ فرمایا کہ یہ خیالات باطل اور اعتقادات فاسد ہیں حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ ان دونوں کو گرہن میں مبتلا کر کے صرف اپنی قدرت کا اظہار کرتا ہے اور لوگوں کو اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔ فاذکروا اللہ کا مطلب یہ ہے کہ چاند و سورج گرہن کے وقت اگر نماز کے وقت مکروہ نہ ہوں تو کسوف و خسوف کی نماز پڑھو اور اگر اوقات مکروہ ہوں تو پھر نماز نہ پڑھو بلکہ پروردگار کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر نیز استغفار میں مشغول ہوجاؤ۔ لیکن یہ بات جان لو کہ یہ حکم امراستحبابی کے طور پر ہے وجوب کے طور پر نہیں ہے کیونکہ نماز کسوف و خسوف واجب نہیں ہے۔ بلکہ بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک سنت ہے۔ رہتی دنیا تک کھاتے یعنی جیسا کہ بہشت کے میووں کی خاصیت ہے، انگور کے اس خوشہ میں سے جو دانہ کھاتے اس کی جگہ دوسرا دانہ پیدا ہوجاتا اسی طرح وہ خوشہ رہتی دنیا تک چلتا رہتا۔ جنت کے اس خوشہ انگور کو رسول اللہ ﷺ کے نہ لینے کا سبب یہ تھا کہ اگر آپ ﷺ اسے لئے لیتے اور لوگ اسے کچھ لیتے تو ایمان بالغیب کی کوئی حقیق و اہمیت باقی نہ رہ جاتی۔
Top