مشکوٰۃ المصابیح - قربانى کا بیان - حدیث نمبر 1444
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا عَمَلَ ابْنُ اٰدَمَ مِنْ عَمَلٍ یَوْمً النَّحْرِاَحَبَّ اِلَی اﷲِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ وَاِنَّہ، لِیَاتِی یُوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِ ھَا وَاَظْلَا فِھَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اﷲِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ بِالْاَرْضِ فَطَیِّبُوْا بِھَا نَفْسًا۔ (رواہ الترمذی و ابن ماجۃ)
قربانی کی فضیلت
اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ابن آدم کا نحر (یعنی قربانی کے دن) ایسا کوئی عمل نہیں جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ محبوب ہو اور (قربانی کا) وہ ذبح کیا ہوا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کا خون قبل اس کے کہ زمین پر گرے (یعنی ذبح کرنے کے ارادہ کے وقت ہی) الٰہی میں قبول ہوجاتا ہے۔ لہٰذا تم اس کی وجہ سے (یعنی قربانی کر کے) اپنے نفس کو خوش کرو۔ (جامع ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
زین العرب فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بقر عید کے دن سب سے افضل عبادت قربانی کے جانور کا خون بہانا ہے اور قربانی کا جانور قیامت کے روز اسی طرح آئے گا جس طرح کے دنیا میں قربانی سے پہلے بغیر کسی عیب کے تھا تاکہ وہ قربانی کرنے والے کے ہر ہر عضو کی طرف سے نعم البدل اور پل صراط پر اس کی سواری ہو۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جب تم نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری قربانی قبول کرتا ہے اور اس کے بدلہ میں تمہیں بہت زیادہ ثواب سے نوازتا ہے تو قربانی کرنے کی وجہ سے تمہارے اندر کسی قسم کی کوئی تنگی یا کراہت پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ اس عظیم خوشخبری کی وجہ سے تمہارے نفس کو مطمن اور تمہارے دل کو خوش ہونا چاہیے۔
Top